اےڈی خواجہ اور ماورائےعدالت قتل
تحریر: ارمان صابر
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میری ایس ایس پی ساؤتھ اے ڈی خواجہ کے ساتھ ان کے دفتر میں ماورائے عدالت اور نظامِ انصاف پر بحث ہورہی تھی اور مجھے دفتر جانے میں دیر ہورہی تھی۔ اس بحث کو ملتوی کرتے ہوئے میں نے کہاتھا کہ مجھے ابھی دفتر جانے کی جلدی ہے۔ آپ سے پھر کبھی اس موضوع پر دوبارہ بات کریں گے۔
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میری ایس ایس پی ساؤتھ اے ڈی خواجہ کے ساتھ ان کے دفتر میں ماورائے عدالت اور نظامِ انصاف پر بحث ہورہی تھی اور مجھے دفتر جانے میں دیر ہورہی تھی۔ اس بحث کو ملتوی کرتے ہوئے میں نے کہاتھا کہ مجھے ابھی دفتر جانے کی جلدی ہے۔ آپ سے پھر کبھی اس موضوع پر دوبارہ بات کریں گے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ بطور ایس ایس پی جنوبی
تعینات تھےاور میرا دفتر ڈان اخبار قریب ہی واقع تھا۔ اس وقت ضلع کا سربراہ ڈی
آئی جی کے بجائے ایس ایس پی اور کوتوالِ شہر ڈی آئی جی کراچی کہلاتا تھا۔میں
اپنے دفتر پہنچا، حسبِ معمول خبریں فائل کیں۔اسی دوران دفتر میں آفس بوائے کا کام
کرنے والے ایک صاحب میرے پاس آئے اور اپنے بھائی کی دہائی دینے لگے۔ میں نے انہیں
اپنے قریب بٹھایا اور ان کی ساری بپتا سنی۔
انہوں نے کہاکہ ان کے بھائی کو پولیس دھوبی گھاٹ سے اٹھا کر لے گئی ۔
تفصیل پوچھنے پر بتایاکہ پولیس نے گزشتہ رات علاقے میں متحدہ کے بعض لڑکوں کو
پکڑنے کے لئے چھاپے مارے اور اسی دوران ان کے بھائی کو بھی لے گئے۔ میں نے ان کے
بھائی کا نام اور عمر دریافت کی جس پر معلوم ہوا کے وہ پچاس سے اوپر ہیں اور ان کا
کسی سیاسی یا مذہبی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تمام معلومات حاصل ہونے کے بعد
میں نے تھانے کی حدود پوچھی تو بتایا کہ گارڈن تھانہ لگتا ہے۔
گارڈن تھانہ ضلع جنوبی میں واقع ہے لہذا میں نے اس وقت کے ایس ایس پی اے ڈی
خواجہ سے فون پر بات کی اور ان سے سارا ماجرا بیان کیا۔ انہوں نے دس منٹ کے بعد
فون کرنے کو کہا اور وعدے کے مطابق فون کرکے بتایاکہ آپ کا بندہ مطلوب نہیں تھا ،
اسے موبائل کچھ ہی دیر میں گھر چھوڑ دے گی۔ یہ بات میں نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے
صاحب کو بتادی جسے سن کر ان کے چہرے پر قدرے اطمینان چھلکنے لگا۔ گھنٹہ بھر بعد وہ
دوبارہ میرے پاس دمکتے چہرے کے ساتھ آئے اوربتایاکہ ان کے بھائی گھر پہنچ گئے لیکن
شدید بخار میں ہیں۔
اگلے روز معلوم ہوا کہ گارڈن پولیس کی حراست میں ایک نوجوان جاں بحق ہوگیا ہے
جس کی لاش کو جناح ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ ابتدائی پوسٹمارٹم میں معلوم ہوا کہ
اس کے جسم پر چوٹوں کے بارہ نشانات پائے گئے۔ اس کے جسم کے چند حصوں کو طبی معائنے
کےلئے لیبارٹری بھیج دیا گیا۔ یہ علٰیحدہ بات ہے کہ بعدازاں حتمی پوسٹمارٹم
رپورٹ میں بارہ بیرونی اور سترہ اندرونی زخموں کےباوجود ملزم کی موت کو طبعی قرار
دیا گیا تھا۔
تمام تفصیلات، لواحقین اور پولیس کے بیانات لینے کے بعددفتر پہنچاتو تجسس ہوا
اور میں نے کل کے واقعہ سے متعلق آفس بوائے سےتفصیلات جاننا چاہی۔ سیدھا
آفس بوائے کے پاس گیا اور ان کے بھائی کے خیریت دریافت کی۔ معلوم ہوا پہلے سے
بہتر ہیں۔ میرے پوچھنے پر مزید بتایاکہ بھائی کو ایک ایسے کمرے میں بند کیا تھا
جہاں پہلے سے موجود ایک نوجوان پر تشدد کیا جارہا تھا اور اس کی چیخوں سے بھائی کا
دل دہل گیا تھا۔ میں نے پوچھا کس قسم کا تشدد ہورہاتھا، اُس نوجوان کا نام کیا
تھا،اس کا تعلق کہاں سے تھا گویا میں نے سوالات کی بارش کردی۔
آفس بوائے میرے سوال سن کر گھبراگیااور کہنے لگا کہ بھائی نے تھوڑا بہت
بتایاتھا کہ اس نوجوان پر بہت زیادہ تشدد ہورہا تھا، کبھی اسے الٹا بھی ٹانگ
کرتشدد کرتے تھے ۔ساری رات اور دن بھر یہی ہوتارہا۔ نام نہیں معلوم لیکن پولیس
والے اسے کالیا کہہ رہے تھے۔
تمام دن کے واقعات جمع کرکےخبر بنانے میں مصروف تھاکہ فون کی گھنٹی بجی۔فون
اٹھایا تو دوسری جانب اے ڈی خواجہ تھے۔علیک سلیک کے بعد کہنے لگے ارمان کل میں نے
آپ کو فیور دیا تھا، کیا آج آپ مجھے فیور دو گے۔ میں ذرا گھبرا گیا کہ کہیں خبر
روکنے کا مطالبہ نہ کردیں کیونکہ میرے سامنے یکدم ان کے ساتھ ماورائے عدالت قتل سے
متعلق بحث کی جیسے پورافلم چل گئی ہو۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کیا فیور چاہیے،
کہنے لگے آج جو بھی خبر دو اس میں میرا ورژن ضرور دینا۔ میں نے سکون کا سانس لیا
اور کہا جی جی بالکل یہ تو آپ کا رائٹ ہے۔
گارڈن پولیس کی حراست میں نوجوان کی ہلاکت سے دو روز پہلے اے ڈی خواجہ ماورائے
عدالت قتل کے حق میں دلائل دے رہے تھے۔ بحث کے دوران ان کا کہنا تھا کہ پولیس اپنی
جان پر کھیل کر خطرناک ملزمان کو پکڑ کر عدالت لے جاتی ہے اور وہ عدالت سے بری
ہوکر دوبارہ جرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ ایسے کرمنلز کو “کمزور عدالتی نظام” سے گزارے بغیر انجام تک
پہنچا دیا جائے۔ وہ یہ ماننے پر تیار نہیں تھے کہ اس طرح بے گناہ افراد بھی
قتل ہوسکتے ہیں۔ اس سوچ کے حامل صرف اے ڈی خواجہ ہی نہیں بلکہ محکمہ پولیس میں کئی
افسران اس موقف کے حامی ہیں۔ (مجھے اب نہیں معلوم کہ جناب اے ڈی خواجہ اپنے موقف
پر قائم ہیں یا تبدیل کرچکے ہیں)۔
کئی برسوں کے بعد اس گفتگو کی یاد اس وقت آئی جب بےگناہ انتظار، نقیب اللہ
اور مقصودکے مبینہ مقابلے میں مارے جانے کے بعد سوشل میڈیا پر پولیس کوآڑے ہاتھوں
لیا گیا۔ ایک نجی محفل میں ایک صاحب نےکہا اے ڈی خواجہ کے ہوتے ہوئے ماورائے عدالت
قتل ہورہے ہیں تو وہ کیوں کچھ نہیں کرتے، کیا وہ بطورپولیس سربراہ اس کے ذمہ دار
نہیں۔
میں نے جواباً کہاکہ اے ڈی خواجہ ایسی سوچ کے حامل ہیں جنہیں نظامِ انصاف پر
بھروسہ نہیں جبکہ اسی عدالتی نظام کی وجہ سے وہ آج آئی جی سندھ ہیں۔
a true picture of our police system and approach of those who running this..
جواب دیںحذف کریںارمان بھائی زبردست
جواب دیںحذف کریںہماری عدالتی نظام ہو یا پولیس نظام یا پارلیمانی نظام سب گل سڑ چکے ہیں
عدالتیں روٹی چور کے مقدمات کا فیصلہ سالہا سال نہیں سناتیں لیکن پانچ سو کروڑ کی کرپشن کرنے والے اور قاتل فورا رہا ہوجاتے ہیں ایسا ہی حال پولیس کا ہے