خاموش قاتل!
تحریر: شاہد انجم
رانی ہسپتال کے
باہر دیوار کے ساِئے میں بیٹھی تھی چہرے پر اداسی اور آنکھوں سے آنسو اس طرح رواں تھے
جیسے کسی ضیف المعر خاتون موتیے کی بیماری میں مبتلا ہو۔ ہسپتال کے ملازم نے کہا آپ
یہاں سے کہیں اور چلی جائیں ورنہ ہسپتال کی انتظامیہ کے کسی افسر نے دیکھ لیا تو ہمارے
لیے مصیبت ہوجائیگی۔
رانی نے بھرائی
ہوئی آواز میں کہا کہ ہم کہاں چلے جائیں میرا شوہر بیمار اور ہسپتال کے وارڈ میں زیر
علاج ہے اور مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے چند روز میں میں بھی اس ہسپتال کی مریضہ بن جاوں
گی۔
رانی کے اس جواب
کے بعد ہسپتال کے ملازم نے کہا کہ شہر میں ایمرجنسی نافذ ہوگئی ہے شدید گرمی کے باعث
شہر بھر میں اعلان کردیا گیا ہے کہ تمام شہری اپنے گھروں میں ہی محصور ہوجائیں تاکہ
وہ ایک ایسی بیماری جس کو ہیٹ اسٹروک کہا جاتا ہے اس سے محفوظ رہ سکیں۔
حکومت کی جانب سے
یہ اعلانات بھی کیے گئے ہیں کہ شاہراہوں پر سائبان کے انتظامات ٹھنڈے پانی کے کولر بھی رکھے جائیں
تاکہ شہری شدید دھوپ میں لگائے گئے کیمپوں پر رک کر پانی سے اپنے جسم کو تر کرلیں تاکہ
ہیٹ اسٹروک سے بچا جاسکے۔
حکومتی اعلانات
کے بعد ہسپتالوں کے عملے کی چھٹیاں منسوخ اور ایمرجنسی وارڈ قائم کردیئے گئے۔ حکومتی
دعوے شروع ہوگئے سیاسی پنڈتوں نے اپنی اپنی دکانیں چمکاتے ہوئے مخالفین پر زبان کے
نشتر سے وار کرنے شروع کردیئے مگر شاید کسی نے اپنے نہ تو ضمیر کو جھنجھوڑا اور نہ
ہی کسی نے ماضی کے چند سالوں پر نظر ڈالی جب
شہر قائد میں انکےبزرگوں کے ہاتھوں سے لگائے گئے وہ درخت انکے بزرگوں کے دنیا سے چلے
جانے کے بعد کاٹ کاٹ کر پھینک دیئے گئے شاید وہ یہ بات بھول گئے تھے کہ بزرگوں کے ہاتھوں
سے لگائے گئے درخت فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔
وہ کون لوگ تھے
جو اس شہر کے ساتھ اور اس میں بسنے والوں کی زندگیوں سے کھیلنے والی سازش میں شامل
تھے وہ کون لوگ تھے جنہوں نے دہشت گردی کی، گولیاں چلائیں اور نہ ہی پانی میں زہر گھولا
پھر بھی ہزاروں انسان موت کی نیند سلا دیئے۔
آکسیجن دینے والے ان درختوں کو کاٹنے کے بعد چند
سکوں کی خاطر اس شہر کی شاہراہوں پر ایسے درخت لگا دیئے گئے جو سایہ دے سکیں اور نہ
ہی آکسیجن بلکہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ انسان تو انسان کوئی پرندہ بھی ان
درختوں پر اپنا بسیرا نہیں کرتا۔
کیا کبھی کسی نے
اس گھناؤنی سازش کے بارے میں کوئی سراغ لگایا یا چھان بین کی کیا کبھی کسی نے ان خاموش
دہشت گردی کرنے والے مجرموں کے گریبان پر ہاتھ ڈالا؟ کیا اس جرم میں ملوث ان افراد
سے پوچھا کہ تم نے ہماری آنے والی نسلوں کو تباہ کرنے کی سازش کب اور کس کے کہنے پر
کی؟ اگر اب بھی یہ احتساب اور اس کا مداوا نہ کیا گیا تو اس شہر کی دیواروں کے سایہ تلے رانی بیٹھی ہوئی
ملے گی ۔۔۔ ذرا سوچیئے ذراسوچیئے!
مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا
بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment