ان کے جذبہ خدمت کی توہین نہیں کی جانی چاہیے

PKLI chief grilled in Supreme Court and praised on Twitter

تحریر: ارمان صابر

لاہور میں پاکستان کڈنی اینڈ لیورٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ اینڈ ریسرچ سینٹر اور اس کے سربراہ ڈاکٹر سعید اختر کا نام اتوار کو زبان زد عام ہوگیا۔ ٹوئٹر پر ریسپیکٹ ڈاکٹر سعید #RESPECT_DR_SAEED ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔

یہ سب اس وقت ہوا جب چیف جسٹس آف پاکستان نے پاکستان کڈنی اینڈ لیورٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ اینڈ ریسرچ سینٹرمیں مبینہ بےضابطگیوں کی سماعت کے دوران ڈاکٹر سعید اختر پر نہ صرف برہمی کا اظہار کیا بلکہ ان سے کہا کہ بارہ بارہ لاکھ روپے پر ڈاکٹر بھرتی کرکے ملک کی کون سی خدمت کی گئی۔

چیف جسٹس نے ادارے کی تعمیر کے دوران اخراجات پر بھی سوال اٹھائے۔ چیف جسٹس نے ڈاکٹر سعید اختر سے استفسار کیا کہ اے پلس کنسٹرکشن تین ہزار روپے فی اسکوائرفٹ میں ہوتی ہے، پی کے ایل آئی میں یہ تعمیرات دس ہزارایک سو روپے فی اسکوائر فٹ میں کرائی گئی۔  چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا یہ کوئی سلطنت نہیں تھی کہ سلطان جو بھی حکم دیتے رہیں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دوران سماعت ڈاکٹر سعیداختر پر برہم ہوتے ہوئے تنبیہ کی کہ آپ کو کڑے حساب سے گزرنا ہوگا، ذمہ دار کے خلاف کارروائی ہوگی۔ انہوں نے ڈاکٹرسعید اختر سے کہا آپ نے خزانے کا بیس ارب روپے کہاں لگادیا،اخراجات کا فرانزک آڈٹ کرایاجائے گا، اور آپ ملک سے باہر نہیں جاسکتے، مکمل احتساب تک بھاگنے نہیں دیا جائے گا۔

ڈاکٹر سعید اختر نے عدالت کے روبرو اپنی صفائی میں صرف اتنا کہا کہ میرا کیریئر بے داغ ہے، میں نے کرپشن نہیں کی۔

اس مقدمہ کی کارروائی کی تفصیل میڈیا پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں نے کمنٹ کرنا شروع کردیے اور بڑی تعداد کمنٹس کی ایسی ہے جو ڈاکٹر سعید اختر کے حق میں جاتے ہیں۔

دیکھتے ہی دیکھتے ٹوئیڑ پر ڈاکٹر سعید اختر سے متعلق ٹاپ ٹرینڈ بن گیا جس میں لوگوں نے چیف جسٹس اور ان کے ساتھ ایک انتہائی حساس ادارے کو شدید نتقید کا نشانہ بنایا۔ جو کچھ لوگوں نے لکھا ہے وہ توہین عدالت سے کہیں زیادہ شدید ہے جن کا یہاں حوالہ بھی نہیں دیا جاسکتا۔ 

ویسے یہ تو سنا تھا کہ قانون اندھا ہوتا ہے، انصاف کی دیوی کے آنکھوں پر پٹی بندھی ہوتی ہے، انصاف بے رحم ہوتا ہے لیکن کبھی یہ نہیں سنا کہ انصاف بدتمیز یا بدتہذیب ہوتا ہے۔

لوگوں نے سوشل میڈیا پر کہا ہےکہ ملک سے باہر رہنے والے پاکستانی جب اپنے ہم وطنو کی خدمت کرنے واپس آئیں تو ان کا عزت و احترام کیا جانا چاہیے اور ان کی اور ان کے جذبے کی کسی طور توہین نہیں کی جانی چاہیے کیونکہ ملک سے باہر وہ پیسہ ہی کما رہے تھے یہاں تو وہ خدمت کے جذبے سے آتے ہیں۔ 

لوگوں نے چیف جسٹس کو بھی مشورہ دیا ہے کہ وہ مقدمہ کی شنوائی کے دوران کیس میں ملوث افراد کے عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھا جائے کیونکہ جب تک  فیصلہ نہیں ہوجاتا وہ مجرم نہیں ہیں۔





ڈاکٹرسعید اختر کون ہیں؟

ڈاکٹر سعید اختر نے امریکا سے میڈیکل کی ڈگری حاصل کی اورٹیکساس یونیورسٹی ہیلتھ سائنسز میں یورولوجی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ وہ اسلام آباد کے شفا ہسپتال میں ٹرانسپلانٹ سرجری کے ڈائریکٹر اور سرجری ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں نے یونیورسٹی آف منی سوٹا میں بطوروزٹنگ پروفیسرٹرنسپلانٹ سرجری میں تعلیم دی۔

ڈاکٹر سعید اختر کو شعبہ طب میں خدمات کے صلے میں انتیس مختلف ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔ پاکستان میں ریسرچ اور ایجوکیشن کے شعبوں بین الاقوامی معیار متعارف کرانے پر حکومت پاکستان نے انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا ہے۔ وہ دنیا بھر کی سولہ پیسہ ورانہ تنظیموں کے متحرک رکن ہیں۔ وہ تحقیق وتعلیم وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کی تینتالیس پبلیکشنز بھی موجود ہیں۔

جانیے ڈاکٹر سعید اختر  سے متعلق مزید تفصیل

مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.