گھر تو آخر اپنا ہے
تحریر: تابش کفیلی
کیوں آتے ہیں
پاکستان؟ کیوں ان بھولے لوگوں کو اپنے ہم وطنو کی یاد ستاتی ہے؟کیوں اپنے لوگوں کو
بھوک افلاس اور بیماری میں تڑپتا نہیں دیکھ سکتے؟ کون ہیں،کیسے ہیں یہ لوگ؟ کیوں
آتے ہیں سمندر پار سے اپنی
آسائشوں سے بھری دنیا چھوڑ کر؟ دیار غیر
جس نے پیسہ دیا آسائشیں دی، نام دیا مقام دیا اسے چھوڑ کر اپنی جنم بھومی کی جانب
واپس کوچ کرنے والے ان لوگوں کو کیا سوجھتی ہے کہ چلے آتے دیس واسیوں کی خدمت کو۔۔
راتوں کو جاگ
کر سورج میں پسینہ خشک کرکےسالوں میں کمائی اپنی عزت کو کیوں اپنے دیس کی گلیوں
کوچوں ایوانوں میں اچھلواتے ہیں؟ یہ دھرتی کی کیسی محبت ہے؟ جس میں انہیں کوئی فرق
ہی نہیں پڑتا، جہاں لوگ انہیں گالیاں دیتے ہیں، کوستے ہیں طنز کا نشانہ بناتے ہیں بیوقوف
اور احمق کے القابات سے نوازتے ہیں کہ دیوانے ہیں جو بادشاہوں جیسی زندگی چھوڑ کر
یہاں دھول چاٹنے آگئے ہیں۔
دیار غیر میں
لاکھوں کروڑوں کمانے والوں پر یہاں کرپشن کے الزامات لگائے جاتے ہیں پھر بھی یہاں
در در کی ٹھوکر کھانے کو ترجیح کیوں دیتےہیں۔ اپنوں کیلئے کسی پراجیکٹ کی خاطر
سرکاری دفاتر میں کلرک سے لیکر افسر تک اور عدالت میں اعلیٰ ججوں کی تلخ و ترش
باتیں ہنس کر کیسے برداشت کرلیتے ہیں۔ کبھی تو واپس دیارغیر جانے کا خیال آتا ہی
ہوگا!
اپنی جیب گرم کرنے کی خاطرجب پولیس والے اور
سیاست دان پراجیکٹ میں روڑے اٹکاتے ہیں تو کیسے یہ اپنا غصہ پی جاتے ہیں؟ وطن کی
محبت میں ایسے ہی ہیں یہ لوگ، اپنے وطن اپنے لوگوں کی خاطر ہر طرح کی باتیں برداشت
کرتے ہیں چاہے ان بے حدقابل اورمحترم لوگوں کو کوئی قابلیت کا طعنہ دے یا لوٹ
کھسوٹ کا الزام دھرے انہیں کچھ فرق نہیں پڑتا، یہ صرف اپنا کام کرتے رہنا چاہتے
ہیں اپنے حصے کا کام، اپنے دیس کی خدمت کو مقصد حیات جانتے ہیں کیوں کہ انہیں پتہ
ہے
موج بڑھے یا
آندھی آئے
دیا جلائے
رکھنا ہے
گھر کی خاطر سو
دکھ جھیلیں
گھر تو آخر اپنا ہے
مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment