عید کارڈز کبھی اظہار محبت کا ذریعہ تھے
ہلال عید کو اے مہ جبیں دیکھا تو کیا دیکھا
میٹھی عید کی آمد آمدہے لیکن کسی کو عید کارڈ خریدنے کی پروا ہے نہ عید کارڈ لکھنے کی خبر۔ کمپیوٹر کے بعد اینڈرائڈ فونزنے اس خوبصورت روایت کولگتاہے ہمیشہ کیلئے دفن ہی کردیاہے۔
سوشل میڈیا کی تیز ترین دنیا میں گم نوجوانوں کے پاس عید کارڈ خریدنے کا وقت نہیں۔ بچپن کازمانہ تھا نئے نئے دوست بنانے انہیں اپنی نشانیاں، کارڈ اورتحفے تحائف دینے کاشوق جوان تھا۔ ماہ رمضان کاآخری عشرہ شروع ہونے سے پہلے ہی دوستوں اورعزیزواقارب کیلئے عید کارڈز کی تلاش شروع کردی جاتی۔
بڑوں کیلئے اوراپنے ہم عمرکرنز کیلئے کارڈز کا انتخاب انتہائی سوچ سمجھ کر کیا جاتا، اپنی پسندیدہ کزنز سے یوں تو دل کا حال کہنے کی ہمت نہ ہوتی لیکن عید کاموقع غنیمت جان کر ایسے کارڈ کا چناؤ کیا جاتا جو دل کی بات بیان کردیتا، مطلب سانپ بھی مرجاتا اور لاٹھی کےساتھ چہرے بھی خراشوں سے بچے رہتے۔
عید کارڈ خریدنے کے بعد اگلامرحلہ اشعار کے انتخاب اور متن کاہوتا۔ دوستوں کو "ڈبے میں ڈبہ ڈبے میں کیک میری سہیلی لاکھوں میں ایک"، اور"سویاں پکی ہیں سب نے چکھی ہیں تم کیوں روتے ہوتمہارے لیے بھی رکھی ہیں"۔ "عید آئی تم نہ آئےعیدکاہے کیامزا، عید تونام ہے ایک دوسرے کی دید کا"، جیسے اشعارلکھے جاتے۔
عید کارڈ کی آڑ میں سلام محبت، پیغام محبت جیسے الفاظ کاچناؤ ہوجاتا تو اگلا مرحلہ کارڈ پوسٹ کرنے کا آتا۔ ڈاکخانے کا رخ کرتے تو وہاں لوگوں کی قطاریں ہوتیں۔ اس بات کاخاص خیال رکھاجاتا کہ عید کارڈ عید سے پہلے مل جائے بعد میں ملاتو کیافائدہ۔
عید کارڈ بھیجنے کے ساتھ ساتھ عید کارڈ ملنے کابھی شدت سے انتظارکیا جاتا اور اس کارڈ کو لمبے عرصے تک سنبھال کررکھاجاتا کیوں کہ محض عید کارڈ ہی نہیں ہوتا تھا اس کی تحریر اورتصویر میں چھپی اپنوں کی محبت اثاثہ ہوا کرتی تھی۔
اس تحریر کے مصنف وسیم احمد نے صحافت کا آغاز پاکستان کے سب سے بڑے اخبار میں ملازمت سے کیا۔ وہ صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ کئی اخبارات اور نیوز چینلز میں کام کرچکے ہیں۔ وسیم احمد سے فیس بک یا ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment