ایک کتاب کے شور میں دوسری کتاب نظرانداز؟

A book goes in background amid rumpus on another book

تحریر: شاہد انجم

بابا جی آپ آئے روز قبرستان کیوں آتے ہو اور اب چند روز سے میں دیکھ رہا ہوں کہ اس میں تسلسل آرہا ہے اور آپ کے ساتھ کچھ ایسے لوگوں کو بھی دیکھ رہا ہوں جنہیں میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا بلکہ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ابھی تک آپ تعین ہی نہیں کرپارہے کہ آپ نے کس قبر پر فاتحہ خوانی کرنی ہے۔

گورکن پانی کا کنستر لیے بابا جی کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا اور معصومانہ لہجے میں سوال کیے جارہا تھا۔  وہ بابا جی کے اشارے پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ایسی قبروں پر پانی کے ڈبے ڈال رہا تھا جن پر کتبے تک نہیں تھے۔ یہ نامعلوم لوگ تھے یا بابا جی کو ان کے بارے کوئی معلومات ہی نہیں تھیں۔

اسی طرح کئی روز گزر گئے کہ اچانک ایک روز گہرے بادل آئے اور مینہ برسنے لگا۔ بابا جی نے  گورکن سے معلوم کیا کہ کیا اس قبرستان میں کوئی ایسی جگہ ہے جہاں تھوڑی دیر آرام کیا جائے تاکہ کپڑے گیلے ہونے سے بچ سکیں۔ بابا جی کے اس سوال پر گورکن نے دائیں طرف دیکھتے ہوئے اشارہ کیا اور کہا کہ سامنے جو بڑا درخت نظر آرہا ہے اس کے نیچے ایک جھگی نما کمرہ موجود ہے یہاں ہم جاکر بارش کے رکنے کا انتظار کرسکتے ہیں۔

گورکن کے اس جواب کے بعد بابا جی نے درخت کی جانب رخ کیا اور جب اس کمرے میں پہنچے تو دیکھا کمرے میں چارپائی پر ایک بزرگ آرام فرما رہے تھے۔ گورکن نے بابا جی سے کہا کہ یہ میرے تایا ہیں اور پچھلے پچاس سال سے اس قبرستان کی خدمت کررہے ہیں۔ آپ ان سے کسی کے بارے معلومات لینا چاہیں تو مل سکتی ہے۔

بابا جی اس بزرگ سے محو گفتگو ہوئے اور پوچھا آپ کا نام کیا ہے جس پر بزرگ نے اپنا نام بتاتے ہوئے کہا کہ مجھے  شیرو گمنام کہتے ہیں۔ میں نہیں سمجھا کہ آپ کو گمنام کیوں کہتے ہیں۔ بزرگ نے جواب دیا ہم نسل در نسل گورکن ہیں اور یہاں جس کو بھی لایا جاتا وہ اور ہی دنیا میں گم ہوجاتا ہے اور اسی وجہ سے  لوگ مجھے گمنام کہتے ہیں۔

بزرگ نے پوچھا  آپ کون ہو کہاں سے آئے ہو کہاں رہتے ہو، میں نے آپ کو پہلے کبھی نہیں دیکھا، کس کی قبر تلاش کرتے پھر رہے ہو تو بابا جی نے کہا آپ کی بات ٹھیک ہے میں اس دیس کاباسی نہیں ہوں لیکن کبھی کبھار یہاں آتا ہوں میرا نہ تو بچپن یہاں گزرا نہ لڑکپن میں یہاں کھیلا اور نہ ہی جوانی یہاں گزاری بس ایک داستان ہے جسے پردہ میں رکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔

بارش تھم چکی تھی، آسمان صاف ہوگیا تھا، سورج نے آنکھ کھولی تو بابا جی نے کہا کہ اب میں چلتا ہوں پھر آؤں گا۔ اس قصہ سے مجھے پاکستانی میڈیا پر ریحام خان کی آنے والی مبینہ کتاب کے بارے میں یاد آیا کہ ہر ٹی وی چینل پر اینکر حضرات چیخ چیخ کر پاکستانی عوام کو یہ بتلانا چاہ رہے ہیں کہ خبردار ایک ایسی کتاب کا نزول ہونے والا ہے جو اس ملک کی نامور شخصیات کو بے پردہ کردے گی۔

ملک کی سیاسی جماعتوں کے کھلاڑی زیتون کے تیل کی مالش کرکے اپنے سیاسی مخالفیں کو للکارتے نظر آرہے ہیں۔ مجھے افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ دنیاوی خوشیاں حاصل کرنے کے لیے اپنی ہی ماؤں بہنوں کے سروں سے ڈوپٹے کھینچ رہے ہیں تاکہ وہ اپنے سیاسی خداؤں کے سامنے سرخرو ہوکر ان کی زیادہ سے زیادہ قربت حاصل کرسکیں۔


ان جھمیلوں میں شاید یہ بھول گئے کہ مبینہ کتاب جس کے اقتباس کے بارے میں ابھی لاعلم ہیں، اس کتاب کی آگ کو کسی طرح ٹھنڈا کیے جانے کی کوشش ہے یا پھر اس کے پس پردہ کوئی اور کتاب کی  لگائی آگ جس کے شعلے اس سے بھی کہیں بلند ہیں اسے تو نظر انداز نہیں کیا جارہا؟؟؟


اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔


مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.