الو کو الزام کیوں دیں؟
طوطا مینا ہنی مون
کے لیے نکلے۔
خوبصورت جھیل اور
آبشاروں جیسی جگہ کی تلاش میں اڑان بھری۔ کافی دیر اڑنے کے بعد ایک جگہ پڑاؤ ڈالا۔
اونچے درخت پر بیٹھ کر علاقے کا معائنہ کرتے ہوئے طوطا
مینا سے بولا، یہ جگہ کتنی ویران ہے، لگتا ہے یہاں الوؤں کا راج ہے۔
یہ سننا تھا کہ ساتھ ہی درخت پر بیٹھا الو اُڑ کر ان
کے پاس آن پہنچا۔ الو نے طوطا مینا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ہیلو کہاںجارہے ہیں آپ لوگ؟
طوطے نے کہا خوبصورت
وادی کی تلاش میں ہیں۔
الو بولا اوہ ہو
ہنی مون ٹرپ
طوطا شرماتے ہوئے
جی جی
ارے اس کے لیے تو
آپ کو بہت اڑنا پڑے گا، سفر طویل ہے، شام بھی ہورہی ہے آج ٖآپ میرے مہمان بنیے صبح
اُڑ جایئے گا۔
الو نے مینا کی
طرف دیکھا تو مینا نے بھی رضامندی میں سر ہلا دیا۔
طوطا مینا، الو
کے گھر گئے جہاں الو نے ان کی خوب خاطر مدارات کی۔ صبح جب طوطے نے الو سے اجازت چاہی
اور اڑنے کے لیے پر کھولے ہی تھے کہ الو نے کہا ارے میاں مٹھو آپ جاؤ میری
بیوی مینا کو کہا لیکر جارہے ہو۔
یہ سنتے ہی طوطا
سٹ پٹا گیا۔ کیا بکواس کر رہے ہو یہ میری بیوی ہے۔ نہیں میری بیوی ہے۔ تکرار بڑھی تو
معاملہ عدالت تک جا پہنچا۔
کئی دنوں تک
مقدمہ چلتا رہا۔ فریقین کے موقف سننے اور کئی
پیشیوں کے بعد عدالت نے الو کے حق میں فیصلہ دے دیا اور مینا کو الو کی بیوی قرار
دیا۔ عدالت سے فیصلہ آنے کے بعد مایوسی میں ڈوبا طوطا جانے لگا تو الو نے پھر آواز
دی۔
ارے میاں مٹھو اکیلے کہاں جارہے ہو، اپنی بیوی مینا
کو تو لیتے جاؤ۔ طوطا بے بسی کے عالم میں بولا اب تو عدالت نے بھی اسے تمہاری بیوی
قرار دے دیا ہے۔
الو بولا عدالت نے تو فیصلہ سنا دیا لیکن ہم تینوں جانتے
ہیں سچ کیا ہے۔ میں نے یہ حرکت اس لیے کی کہ جب کبھی تمہارا گزر کسی ایسی جگہ سے
ہو جہاں ویرانی ہو تو سمجھ جانا کہ وہاں سے
انصاف اُٹھ چکا ہے لہذا ویرانی کا الزام آئندہ کسی الو پر نہ لگانا۔
ہمارے معاشرےکے
انفرادی و اجتماعی معاملات میں بھی انصاف اُٹھ چکا ہے،سیاست میں کارکن سے ناانصافی،
عدالت میں مظلوم سے ناانصافی، معاشرتی ذمہ داریوں سے ناانصافی، سماجی تعلقات میں ناانصافی،
صحافت میں اپنے قلم سے ناانصافی، اختیارات کے استعمال میں ناانصافی، پھر الوؤں کو الزام
کیوں دیں، جب گلستان کی ویرانی میں ہمارا حصہ شامل ہے۔
اس تحریر کے مصنف عبید شاہ ایک نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نوجوان صحافی نے کم عرصے میں میدان صحافت میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان سے فیس بک پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
اس تحریر کے مصنف عبید شاہ ایک نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نوجوان صحافی نے کم عرصے میں میدان صحافت میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان سے فیس بک پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment