کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے!
تحریر: شاہد انجم
اسلم کو آج پان
کی دکان پر دیکھا تو وہ بہت خوشگوار موڈ میں تھا عام دنوں میں اس کی طبیعت اور رویہ بہت خشک
محسوس ہوتا تھا۔ کوئی ایسی بات ضرور ہے جس سے وہ
اتنے خوشگوار موڈ میں ہے ہر دوست کو یہ کہہ رہا تھا کہ آؤ آج میں آپ کو سونف الائچی والا پان کھلاتا ہوں۔
دوپہر کا وقت ہوا، میں آفس سے واپس گھر جا رہا تھا، بند دکان کو دیکھا تو کچھ وقت کے لیے دماغ نے کچھ اور
ہی سوچا مگر پھر خیال آیا کہ ایسا نہیں سوچتے ہوسکتا ہے کوئی بری خبر نہ ہو بلکہ خوشخبری
ملنے والی ہو۔ گھر جا کر کچھ دیر آرام کیا اور پھر گلی کے نکڑ پر آ کر دیکھا تو دکان
کھل چکی تھی۔
میں نے اپنے دوست
اسد کو ساتھ لیا اور دکان پرجا کر پوچھنا چاہا کہ بھائی خیریت تو ہے آج دوپہر دکان
بند تھی جبکہ صبح آپ کا مزاج بہت خوشگوار تھا اور یہ کیا آپ کی دکان کے باہر بینر بھی
آویزاں ہے جس میں تحریر ہے کہ ملک میں مہنگائی ختم ہو گئی ہے اور آج کے بعد میری دکان
میں آدھی سے کم قیمت میں چیزیں میسر ہوں گی۔
یہ بات ہم سمجھنے
سے قاصر ہیں کہ ایسا کیسے اور کب ہوا؟ اس لیے کہ آج بھی ہم نے بس سے آفس جاتے ہوئے
وہی کرایہ ادا کیا، آفس میں دو بار چائے، بسکٹ منگوائے،قیمت وہی پرانی تھی۔ آپ کی ایسی کونسی لاٹری نکل آئی ہے جو آپ نے ایسا
ماحول پیدا کر رکھا ہے۔
اسلم بھائی نے ہمارے
سوالوں کا جواب دینے سے پہلے ایک زور کا قہقہا لگایا اور بڑی تمکنت سے کہا کہ میں آپ کے محلے میں
چند روز کا مہمان ہوں چلا جاؤں گا۔ آپ لوگوں
کی یاد تو بہت آئے گی لیکن یہ میرا حق ہے کہ کسی ایسے علاقے میں جا کر رہائش اختیار
کروں جہاں بڑے بڑے لوگ رہتے ہوں۔ ایک موقع ملا ہے شاید کبھی دوبارہ نہ ملے۔
ہم نے سوال
دہراتے ہوئے معلوم کیا تو اسلم بھائی نے کہا کہ تم ذرائع ابلاغ سے شاید بہت دور رہتے
ہو تمہیں پتا نہیں ہے کہ اس وقت ملک میں کیا ہورہا ہے، آج کے اخبارات کا مطالعہ کرو
یا ٹیلی وژن کی اسکرین پر چلنے والی خبروں کو دیکھو تو تمہیں خود اندازہ ہو جائے گا۔
ابھی تک آپ کی بات
ہماری سمجھ میں نہیں آئی آپ پہیلیاں کیوں بجھوا رہے ہو صاف بتاؤ ایسا کیا ہوا ہے اور
کیا ہونے جا رہا ہے۔ جواب میں اسلم بھائی نے کہا ارے بےوقوفوں! ملک میں عام انتخابات
ہونے جا رہے ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماء اپنے اپنے اثاثوں کے گوشوارے رٹرننگ
افسران کے سامنے پیش کر رہے ہیں جہاں ان کے محلات کی قیمتیں اتنی کم ہیں کہ شاید ہمارے
کچے مکان ان سے زیادہ قیمتی ہوں۔
اسلم بھائی
بولے جارہے تھے اور ہم پوری توجہ سے سن رہے تھے۔ اس خبر کو سننے کے بعد میری بیوی اور
بچوں نے رات بھر سونے نہیں دیا، بارباران کی زبان پر ایک ہی سوال کہ ہمارا کچا
مکان ان کے محل سے زیادہ قیمتی ہے، لہذا اسے فروخت کر کے ہم بھی کسی پوش علاقے میں
رہائش اختیار کرتے ہیں۔
گزشتہ شام ٹی وی پرخبرنشر ہوئی تو پتہ چلا کہ بلاول
ہاؤس کی قیمت صرف تیس لاکھ روپے ہے پروٹوکول میں کئی درجن چلنے والی گاڑیوں کے وہ خود
مالک بھی نہیں ہیں۔ بلٹ پروف اور بم پروف گاڑیوں کے مالک تک نہیں ہیں۔ اسی طرح شہباز
شریف اور حمزہ شہباز، باپ بیٹے کی دو دو بیویاں ہیں لیکن کئی ملوں کے شیئرہولڈرحمزہ
شہباز کے پاس گاڑی تک نہیں ہے، جبکہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف
کی رہائشگاہ بنی گالہ کی قیمت صرف ایک کروڑ چودہ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
میں نے سوچا کہتے تو اسلم بھائی ٹھیک ہی ہیں۔ جتنی قیمت ظاہر
کی گئی ہے اگر اسی قیمت میں نیلامی کی پیشکش کی جائے تو غریب آدمی بھی اپنا کچا
مکان بیچ کر سیاستدانوں کی جائیداد خرید لے۔ تینوں
سیاسی جماعتوں کے سرکردہ رہنماء ایک دوسرے کو کرپٹ کہتے نہیں
تھکتے اور خود کو صادق اور امین کہلوانا چاہتے
ہیں۔
ان کے کسی اپنے نے ہی کہا ہے، کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے؟
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment