کیا ہم قوم کی ماؤں کو اس طرح نشانہ بنائیں؟

Maryam Nawaz with Kulsoom Nawaz and Bilawal Bhutto with the poster of his mother Benazir Bhutto

تحریر: شاہد انجم

میں نے دیواروں پر لگی تصویریں دیکھیں، کہیں چہرے کوہٹا دیا گیا، کہیں پلو سرکا دیا گیا، کہیں دھوپ، کہیں چھاؤں، کبھی کبھار ایسا لگتا ہے شاید بہت پہلے تم سے ملاقات رہی ہے، مجھے اتنی اپنائیت کیوں ہے میں شاید اسکا اندازہ بھی نہیں کر سکتا۔

لوگ مجھے آج بھی تمھارے ہی نام سے جانتے ہیں اور بعض تو مجھے بوسہ دیتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ اس شخصیت نے ہمارا کبھی بوسہ لیا تھا اور اس خوشبو کو اپنے تک منتقل ہوتا پاکر میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بہت اداس رہتا ہوں میں بے یقینی کی صورتحال میں دل چاہتا ہے کہ میرے آنسو جب میرے لب پر آئیں تو تم مجھے سینے سے لگا لو مگر وقت شاید پلٹ کر کبھی نہیں آتا بچپن میں جو تم نے مجھے پیار سےجو چیزیں دی تھیں میں آج بھی وہ سنبھال کر رکھے ہوئے ہوں کبھی ان سے پردہ ہٹا کر انہیں دیکھتا ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

میں کیا کروں مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا اور پھر اچانک سے خیال آتا ہے کہ جب دم رخصت ہو تو تمھاری تصویر میری آنکھوں کے سامنے آ جائے تو شاید وہ سفر میرے لیے کچھ آسانیاں پیدا کر دے، تیرے پیروں میں جنت ڈھونڈتا ہوں مگر وہ پاؤں ہی اب نہیں ہیں جن کی یاد میں کانٹے دل کے آر پار ہوتے جاتے ہیں، کیسے کٹتا ہے وہ سفر نہ تو جانے نہ یہ زمانہ جانے اس لیے کہ معاشرہ صرف مذاق کرتا ہے اور ہماری برائیوں کو ڈھونڈ کر اس پر ڈھول پیٹتا ہے۔

میں کہاں جاؤں اس لیے کہ تجھ سے جڑا وہ رشتہ جس کی وجہ سے میں اس دنیا میں آیا لوگ اسے اچھا نہیں سمجھتے یہ باتیں میں اس وقت یاد کر رہا تھا جب میں نے سوشل میڈیا پر کچھ ایسی پوسٹ دیکھیں جس میں ہمارے معاشرے کے بعض افراد کے دماغ کی گندی سوچ نے تحریر کیا تھا بلاول بھٹو اپنی ماں کے نام پر ووٹ مانگے گا کہ میری ماں مر گئی مجھے ووٹ دیا جائے جس کے ساتھ دوسری تصویر ہماری قوم کی اس بیٹی کی ہے جسے ہم مریم نواز کہتے ہیں اور اس کے ساتھ اس کی والدہ کلثوم نواز کی تصویر کو اس طرح لگایا گیا کہ میری ماں بیمار ہے مجھے ووٹ دو۔

مجھے یہ پوسٹ دیکھ کر بے حد افسوس اور دلی صدمہ ہوا کہ کیا ہماری تربیت میں کوئی فرق ہے، کیا ہمیں یہی تعلیم دی گئی ہے کہ ہم قوم کی ماؤں کو اس طرح سے نشانہ بنائیں، کیا سیاسی کارکن اخلاق سے اتنے گر جائیں گے اور وہ سیاست کو ایک گالی بنا کر رکھ دیں گے اور اگر ایسا ہے تو اپنے لیڈر کی اس بیٹی کا سوچو جس کو تمہارا لیڈر تسلیم ہی نہیں کرتا، عدالت میں پیش تک نہیں ہوتا اورجس روز تمہیں یہ بات سمجھ آ جائے گی تو تم برابری کی بنیاد پر دوسروں کی عزت اور احترام کرو گے۔ 

شاید وہ یہ بھول گئے کہ بلاول بھٹو کی والدہ شہید بے نظیر بھٹو کا مقام کیا تھا۔ یہ دنیا کو اس کی شہادت کے بعد پتہ چلا۔ مسلم ممالک کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز بھی شہید بے نظیر بھٹو کو حاصل ہوا۔ وقت اور حالات اب یہ بھی بتاتے ہیں کہ شاید ہی کبھی اس ملک کو دوبارہ کوئی خاتون وزیراعظم مل سکے۔


اب  کلثوم نواز کو بھی  گزر جانے کے بعد  اچھا کہا تو پھر کیا فائدہ؟ شاید اسطرح کی نفرت انگیز تصویر پوسٹ کرنے والے یہ بھول گئے کہ وہ تین مرتبہ خاتون اول بننے کا اعزاز بھی حاصل کرچکی ہیں جو اب کسی کے نصیب میں شاید ہی آسکے۔ عام محاورہ یہ بھی بولا جاتا ہے کہ مرنے والے کو برا مت کہو کیونکہ تمہیں بھی ایک دن مرنا ہے۔

اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.