تیر یا تلوار جو بھی چلے، چلے گی لیاری والوں کی گردن پر
تحریر: مفلحہ رحمان
ایک ہزار پانچ سو مربع ایکڑ لیاری،پیپلزپارٹی کاگڑھ کہلاتاہے۔ یہاں کی ٹوٹی پھوٹی سانپ سیڑھی جیسی گلیاں، ان سے ابھرتے ٹیلنٹ، فلم ہویا میوزک، تعلیم ہویاکھیل غرض ہر میدان میں اپنا لوہا منواتے ہیں اور یہاں کی روایت الگ ہی پہچان رکھتی ہے۔
ان گلیوں میں ہم نے پی پی کے جیالوں کو مار کھاتے دیکھا۔۔انہیں گھر گھر چھپتے دیکھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو اوربینظیربھٹو پر جان نچھاورکرتے دیکھا۔ ایک زمانہ تھا یہ کہاجاتاتھا کہ لیاری کےلوگ مرتے رہیں گے لیکن جئے بھٹو کانعرہ لگاتے رہیں گے اور سچ بھی یہی تھا۔
یہاں لوگوں کو کھانےکو نہ بھی ملے، ان میں تو بس ذوالفقار علی بھٹو یا بینظیربھٹو کی ایک جھلک ہی پی پی کی محبت زندہ کردیتی تھی۔یہ دونوں جب نہ آتے تھے تب مرتضیٰ بھٹو لگاتار لیاری کے چکر لگاتے تھے،بغیر پروٹوکول کے وہ لیاری والوں کےساتھ گھل مل جاتے، ساتھ کھانا کھاتے مگر یہ رابطے ، محبت کا اانداز اور ملناجلنا سب کچھ کم ہوتاگیا۔ پیپلزپارٹی کی اصل پہچان یعنی لیاری سےان کی محبت دوری میں بدلتی گئی۔
بینظیربھٹو کے بعد جو امیدوارمنتخب ہوئے انہیں صرف الیکشن کےدنوں میں ووٹ کے لئے روتے دیکھا، نئے وعدےکرتے دیکھا اور پھر وہ اگلے الیکشن تک غائب رہے۔ گینگ وارمیں بےگناہ مرتے لوگوں کو جئے بھٹو کے بدلے صرف ٹھوکریں ملیں۔ مجرموں کے علاوہ بےگناہ مرنےوالوں سے جب ایک بار بھی پی پی کی قیادت نے ملنا تو درکنار افسوس کاپیغام تک نہ دیا تب دیواروں سےبینرز اترگئے۔دلوں میں تیر کی محبت پھانس بن گئی۔
یہاں چند علاقوں میں پیپلزپارٹی کے علاوہ جماعت اسلامی، اے این پی کے بھی کچھ امیدوارجیتے لیکن انہیں کام دکھانے کا زیادہ موقع نہ ملاکیونکہ لیاری پر چھاپ جو پیپلز پارٹی کی لگی رہی۔ بجلی ہو یا پانی یا ہوں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں یا کچرے کے انبار، اس علاقے کے مسائل ہمیشہ ہی نظراندازکردیئےجاتےہیں۔
البتہ جونہی الیکشن کاموسم آتا ہے لیاری سے پیپلز پارٹی کی محبت جاگ جاتی ہے۔جئے بھٹوکےنعروں بھرے بینر لگ جاتےہیں۔چھوٹے چھوٹے کام طویل عرصے تک جاری رہتےہیں۔جیالوں کوبھٹوکی محبت یاد دلائی جاتی ہے۔ اب لیاری والوں کے لئے پیپلزپارٹی پہلے جیسی نہیں رہی، وہ لگاؤ رہا، وہ لیڈررہے،نہ ہی جیالوں کی ویسی گرم جوشی۔ بارباربلکہ ہربار نظراندازکیاجانا لیاری والوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرگیاہے۔
وہ پیپلزپارٹی سے وفا کی کسک دل میں لئےپیپلزپارٹی کی توجہ کے اب بھی منتظر ہیں۔ وہ خاموشی سےدوسری جانب تک رہےہیں مگر ایک ان چاہی حقیقت یہی ہے، جیت تیریا تلوارکی ہی ہوگی۔۔اور۔۔تیر یا تلوار۔۔جو بھی چلے۔۔چلے گی لیاری والوں کی گردن پر ہی۔
اس تحریر کی مصنفہ لیاری کی رہائشی مفلحہ رحمان صحافت اور پریس فوٹوگرافی کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ مفلحہ رحمان مختلف اداروں میں کام کرچکی ہیں اور ان کی تحاریر ملک کے موقر اخبارات، رسائل اور جرائد میں چھپ چکی ہیں۔ مفلحہ رحمان سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ Muflehaaa@
مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment