کراچی ووٹ مانگنے آئے تھے، پان گلے پڑ گیا

Shahbaz Sharif criticizes Karachi citizens for eating pan


تحریر: ارمان صابر

پان کھا کر جگہ جگہ تھوکیں، گھرکی، محلے کی، دفتر کی، جو چاہیں دیوار لال کریں، آپ کو اس سے کیا، پان کھانا اور جگہ جگہ پیکیں مارنا ہم کراچی والوں کی روایت ہے، آپ اس پر بولے کیسے!

کراچی ہمارا شہر ہے، ہم یہیں پیدا ہوئے، یہیں پلے بڑھے، پان کھا کھا کر جوان ہوئے۔ ہم اسے کرانچی کہہ کر پان کھائیں یا پان کھا کر کرانچی کہیں، آپ کو اس سے کیا؟

ہمیں بھی اچھا نہیں لگتا جب کسی کام سے سرکاری دفترکی سیڑھیاں چڑھیں یا کسی پارک وغیرہ میں جائیں تو جگہ جگہ پان کی پیکیں ہمارا استقبال کریں۔ یقین جانیے اتنا غصہ آتا ہے کہ لوگوں کو تمیز ہی نہیں جہاں چاہیں پیک ماردیں۔

لیکن ذرا ٹھہریئے، آپ کون ہیں جو اس کو برا بھلا کہیں؟ ہم کراچی کے باسی ہیں، ہم جو چاہیں کہیں، برا کہیں بھلا  کہیں،  آپ کراچی سے باہر کے ہوکر یہاں والوں کو کیسے کچھ کہہ سکتے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ قدیم روایت کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔

بھئی آپ کو  الیکشن مہم کراچی سے شروع کرنے کا  اتنا ہی شوق تھا تو سیاست پر بات کرتے۔ پیپلزپارٹی کو برا بھلا کہتے جس نے برسوں اقتدار میں رہتے ہوئے ترقی کی وہ  بلندیاں نہیں طے کیں جو اگلے پانچ سال میں آپ کرنے کے دعوے کررہے ہیں۔

ارے بھئی آپ ایم کیو ایم پاکستان کو بھی نشانہ بنا سکتے تھے جو کئی دھڑوں میں تقسیم ہو کر دوبارہ ایک ہونے کی کوششوں میں ہے۔ اسی سے نکلی نئی نویلی جماعت پی ایس پی پر بھی طنز کے تیر و نشتر چلا سکتے تھے لیکن آپ کو کچھ نہیں ملا۔  ارے ہاں، اب تو آپ لندن والی سرکار کو بھی جو چاہے کہتے پھرتے، یقین کریں  کوئی ردعمل نہ آتا۔ لیکن پان پر تنقید!

اور ہاں دعوے اتنے بڑے کہ کراچی کو لاہور بناؤں گا بلکہ اس سے بھی بہتر لیکن ذرا مڑ کے تو دیکھیں ایک گرین بس پراجیکٹ جو دسمبر میں مکمل کرنا تھا وہ تو بنا نہیں سکے اور دعوے کرنے چلے ہیں کہ کراچی کو لاہور سے بہتر بناؤں گا۔  بھئی ایسی بات کریں گے تو ردعمل تو آئے گا۔

پراجیکٹ پر بات کرتے، سیاست پر بات کرتے، ووٹ لینے آئے تھے تو ووٹ مانگتے۔ ارے ایک بار ذرا پان ہی کھالیتے تو کراچی والوں کا دل خوش ہوجاتا۔ صرف ایک پان کھانے پر ہی ووٹ مل جاتے۔ اب تو یہ قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ آپ کے آتے ہی پان پر پابندی لگ سکتی ہے، تو اب کون دے گا یہاں سے ووٹ۔ اب تو اس امپریشن کو زائل کرنے میں اور صفائیاں دینے میں الیکشن گزر جائے گا۔

اس تحریر کے مصنف ارمان صابر کا صحافت میں وسیع تجربہ ہے۔ وہ انگریزی اخبار اوربین الاقوامی ادارے سے بھی منسلک رہے۔ ان کی تحاریر مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر شایع ہوچکی ہیں۔  آج کل وہ ایک بڑے نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔  ان سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ ارمان صابر کے بارے میں مزید جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

  1. نہت اعلی ۔۔ شہبازشریف غلط کیا کہاں ۔۔ ہماری پہچان تھی کبھی کہ ہم اہل زبان تھے مہذب تھے ۔۔ آج ہماری یہی پہچان ہے کہ منہ پان سے بھرا ہوا ہوتا ہے اور اب پان نے گٹکے کی جگہ لے کر رہی سہی کسر نکال دی ہے ۔زبان تو ہمارے بچوں کو آتی ہی نہیں آج آپ کسی کیمرج کے بچے سے اردو لکھوالیں اس کو لکھنا ہی نہیں آئے گا ۔۔ میڈیا نے اس بات کا اتنا ایشو بنادیا لیکن میں اہلیان کراچی کی طرف سے یہیں کہتی ہوں کہ اب ہمارے پہنچان زبان ادب اور ثقافت نہیں بلکہ پان گٹکا اور تلفظ سے عاری زبان ہے

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.