حکمرانوں کی تجوریاں بھر جاتی ہیں، ووٹر کا پیٹ خالی رہتا ہے


رمضان آیا ،عید آئی، پھر الیکشن کا زمانہ آیا،  الیکشن میں سلیکشن کی ٹینشن۔ انتخابی مہم میں قصے کہانیاں سنائی جارہی ہیں۔محبت کےوار آزمائے جارہےہیں۔ امیدوار عوام کے سامنے بچھے جارہےہیں۔  دشمن حیران، عوام پریشان ہیں کہ کس کا کریں انتخاب۔

کچھ بھی کریں جناب! تاریخ گواہ ہے کہ حکمرانی ملتے ہی آنکھیں کیسے پھیر لی جاتی ہیں۔ پھر چاہے کراچی میں پٹرول کی قیمت کا مسئلہ ہو یا غریب کی روٹی کا، چاہے سڑک پر مرتے ہوئے عوام کا، امیدوار امید تھماتے ہیں، بھوکے کو چاند گول روٹی کی طرح دکھاتے ہیں اور روٹی بھی وہ چمکتی ہوئی جو کبھی ہاتھ نہ آئے۔

ظلم کا عالم یہ ہوتاہے کہ ماڈل ٹاؤن جیسے واقعات ہوں یا بلدیہ ٹاؤن جیسا سانحہ۔ کیا جلے ہوئے لاشے،گولی کھاتے جسم، کیا بھول گئے سب؟ الیکشن میں امیدواروں کی پڑھائی ہوئی پٹی میں خود ہی بھٹک جاتے ہیں ہم پھر کہتے ہیں حکمران ہیں یا عذاب ہیں۔  اگر یہ حکمران سزا ہیں تو یہ سزا خود چنی ہے ہم نے۔ اپنے حصے کا  ووٹ بھی خود ہی ڈالتے ہیں ہم، کوئی اور  نہیں۔

کیوں بھول جاتے ہیں روز روز کا مرنا۔کیوں بھول جاتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں  جن کی اپنے حلقے میں شکلیں دیکھے زمانہ گزر گیا۔ یہ وہی لوگ ہیں جن سے حق مانگنے جاؤ تو دروازے تو دورکی بات سڑک سے ہی دھکے کھاتے واپس ہو جاؤ۔ کیوں بھول جاتے ہیں کہ بجلی، پانی، سستی روٹی سب ہمارا حق ہے۔ یہ جو حکومت کا خزانہ ہے ہمارے ہی دیئے ہوئے پیسوں سے بھرتا ہے۔ ہمیں کیا ملتا ہے! حکمرانوں کی تجوریاں بھر جاتی ہیں، ووٹر کا پیٹ خالی رہتا ہے، اسٹریٹ لائٹ تک رات میں جلتی نہیں، جلتے ہیں تو صرف دل جلتے ہیں۔

لوگ سسک سسک کر مرتے ہیں، کبھی تھر میں بھوک سے نومولود بچے مرتے ہیں، کبھی بلدیہ ٹاون میں جل کر تو کبھی گولی کھا کر مرتے ہیں، اور کبھی پنجاب کے اسپتالوں کےباہر علاج کےلئے گڑگڑاتے مریض مرتے ہیں، کبھی مقصود اور محسود کی طرح قانون کے ہاتھوں مرتے ہیں، پھر بھی ہم انہی کو ووٹ دیتے ہیں  جو ایک ٹکے کی عزت نہیں دیتے صرف استعمال کرتے ہیں۔

ان جماعتوں کو انسانوں کی صورت صرف ووٹر نظر آتے ہیں، اور ووٹر کے پاس ان سب کو یکسر مسترد کرنے کا کوئی آپشن نہیں۔ ووٹر کے پاس صرف دو آپشن ہیں، ووٹ دو یا گھر بیٹھو۔  بال سیاست دانوں کے ہی کورٹ میں ہے۔ مسلم لیگ ن نے ووٹر کو عزت دو کا نعرہ تو لگا دیا لیکن ن لیگ سمیت جو بھی جماعت الیکشن میں کامیابی حاصل کرتی ہے، اب اس پر منحصر ہوگا کہ وہ ووٹر کی عزت کا پاس رکھتی ہے یا ایک بار پھر ذاتی مفادات  پر  ووٹر کی عزت کی بلی چڑھادی جاتی ہے۔

اس تحریر کی مصنفہ مفلحہ رحمان صحافت اور پریس فوٹوگرافی کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں۔ مفلحہ رحمان مختلف اداروں میں کام کرچکی ہیں اور ان کی تحاریر ملک کے موقر اخبارات، رسائل اور جرائد میں چھپ چکی ہیں۔ مفلحہ رحمان سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔  Muflehaaa@

مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.