بھارت کی آبی جارحیت کا واحد جواب کالا باغ ڈیم کی تعمیر


Pakistan is faced with severe water problem

تحریر: محمدآصف

دنیا میں تیزی سےبڑھتی آبادی، کوئی شک نہیں رہ گیا کہ اس وقت ایٹم بم سے کہیں زیادہ مہلک واٹر بم ہے۔ پانی کسی بھی ملک کے لئے زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ زندہ قومیں پانی کی نعمت کی قدر کرتی ہیں اور اس کی حفاظت و استعمال کے لئے خصوصی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں لیکن ہمارے یہاں بد قسمتی سے معاملہ الٹ ہے۔

 اب چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے ملک میں سنگین ترین صورتحال اختیار کرجانے والے پانی کے مسئلے اور کالا باغ ڈیم کے نہ بننے کا مسئلہ اٹھا کر قوم کے دل جیت لئے۔ یہ بات تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کالا باغ ڈیم سستی بجلی اور وافر پانی کا ضامن ہے، بھارت کی آبی جارحیت کا واحد جواب کالا باغ ڈیم کی تعمیر ہے۔

پاکستان واحد ایسا ملک ہے جس کا کھربوں ڈالر کا پانی ذخیرہ کیے جانے کی بجائے  دریاؤں سے ہوتا ہوا سمندر میں ضائع ہو رہا ہے ۔ پانی کی قلت کے شکار ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پرآگیا جس کی بنیادی وجہ پانی کی دخائر کی کمی اور اس کا نامناسب استعمال ہے۔

سپریم کورٹ نے ملک بھر میں پانی کی قلت اور نئے ڈیموں کی تعمیرسے متعلق آئینی درخواست کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت سے تحریری جواب طلب کر تے ہوئے اس حوالے سے زیر سماعت تمام تر مقدمات کو یکجا کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے کیس کو ہفتہ کے روز کراچی برانچ رجسٹری میں لگانے کی ہدایت کی ہے ۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پانی کے معاملے کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں، پانی کی فراہمی ہمارے بچوں کا بنیادی حق ہے، بھارت کے کشن گنگا ڈیم کے باعث دریائے نیلم اور دریائے جہلم خشک ہوگئے ہیں، اگرہم نے اپنے بچو ں کو پانی نہ دیا تو اور کیا دیں گے؟  چیف جسٹس کے یہ ریمارکس سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔جو مقتدر قوتوں کوعمل کی راہ دکھاتے ہیں۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل بنچ نے پیر کے روز وطن پارٹی کی ملک بھر میں پانی کی قلت اور نئے ڈیموں کی تعمیر سے متعلق درخواست کی سماعت کی تو درخواست گزار کے وکیل، بیرسٹر ظفر اللہ نے موقف اختیار کیا کہ ہم پانی کی اسی صورتحال کو دیکھتے رہیں گے تو مر جائیں گے،پاکستان کی 20فیصد شرح ترقی پانی پر منحصر ہے، 48سال ہو گئے ملک میں کوئی ڈیم نہیں بناہے ۔

فاضل چیف جسٹس نے کہا یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ آج سے ہماری ترجیحات میں سب سے اہم پانی ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن کی چشم کشا رپورٹس چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں پاکستانیوں خدارا پانی کی عظیم نعمت کی قدر کرلو۔رپورٹس کے مطابق ملک میں صرف30 دن کے استعمال کیلئے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے جو کم از کم 120 دن ہونی چاہیے۔

پاکستان میں دریاؤں اور بارشوں کی صورت میں سالانہ تقریبا 115 ملین ایکڑ فٹ پانی مہیا ہوتا ہے جس کا93 فیصد زراعت کیلیے استعمال ہوتا ہے جبکہ5 فیصد گھریلو اور2 فیصد صنعتی مقاصد کیلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق زرعی شعبے کو ملنے والا 70 فیصد پانی دوران ترسیل ضائع ہو جاتا ہے۔


اس تحریر کے مصنف محمدآصف، عامل صحافی ہیں۔ یہ مختلف اخبارات، جرائد، اور نیوز ٹی وی چینلز میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ 

مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

1 تبصرہ:

  1. #کالاباغ_ڈیم۔۔، ایک قدرتی تحفہ۔۔۔۔

    کالاباغ ڈیم اللہ کا انعام تھا ، ہم نے سنجیدہ بحث کیے بغیر اسے متنازعہ بنا دیا۔

    ذرا اس ڈیم کی سکیم سمجھیے۔۔۔۔

    کالام سے دریائے سوات نکلتا ہے جو سارا سال بہتا ہے۔ نوشہرہ پہنچ کر یہ افغانستان سے آنے والے دریائے کابل میں شامل ہو جاتا ہے، اٹک میں یہ دونوں دریا ، دریائے سندھ میں مل جاتے ہیں ۔ اٹک سے کالاباغ تک پانی کو ذخیرہ کرنے کی کوئی جگہ نہیں۔ کالاباغ ایک قدرتی ڈیم ہے۔ یوں سمجھیے بنا بنایا ڈیم ہے۔ اسی لیے لاگت کم آئے گی اور محض چار سال کی مدت میں مکمل ہو سکتا ہے۔

    اب ذرا اس کے فوائد دیکھیے۔
    اس سے 3600 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی ۔
    فی یونٹ بجلی کی قیمت ڈھائی روپیہ تک آ جائے گی ۔
    اس ڈیم کے بھر جانے کی صورت میں کے پی کے کی 7 لاکھ ایکڑ اراضی اراضی سیراب ہو گی۔
    سندھ کی تو دس لاکھ ایکڑ اراضی اس سے سیراب ہو سکے گی۔ کیا یہ معمولی فوائد ہیں۔۔۔؟؟؟

    کیا یہ محض اتفاق ہے کہ کچھ این جی اوز غلط اعداد وشمار سے اسے متنازعہ بنا دیتی ہیں اور کچھ قوم پرست سیاستدان اس کی مخالفت میں مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں یا یہ پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کا ایک پہلو ہے؟

    جس ڈیم سے آپ کا توانائی کا بحران ختم ہو سکتا ہے اور آپ کی سترہ لاکھ ایکڑ اراضی سیراب ہو سکتی ہے اس ڈیم کو سنجیدہ بحث کے بغیر ہی متنازعہ بنا دیا گیا ۔ ذرا ان اعتراضات کا جائزہ تو لیجیے۔کہتے ہیں نوشہرہ ڈوب جائے گا ۔ یہ جھوٹ اس شدت سے پھیلایا گیا ہے کہ کوئی دوسری بات سننے کو تیار نہیں۔
    حقیقت یہ ہے کہ کالاباغ ڈیم نوشہرہ سے 110 کلومیٹر دور ہے اور نشیب میں ہے ۔ اگر یہ ڈیم بھر بھی جائے تب بھی نوشہرہ اس سے 60 فٹ اونچا ئی پر ہو گا ۔ تو وہ ڈوب کیسے جائے گا؟

    سندھ کی بھی سن لیجیے۔
    سادہ اور نیم خواندہ عوام کو خوف دلایا گیا ہے کہ اگر ڈیم بن گیا تو سمندر میں گرنے والا پانی کم ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں سمندر کا پانی آپ کے علاقے میں گھس آئے گا ۔ جس صوبے میں آج تک بھٹو زندہ ہے وہاں یہ کہانی گھڑ کر بیچ لینا اتنی مشکل بات بھی نہیں لیکن حقائق اس کے بر عکس ہیں ۔
    حقائق یہ ہیں کہ ہمارا 90 فیصد پانی سمندر میں ضائع ہوتا ہے ، سمندر میں گرنے والا پانی اگر پچاس فیصد کم بھی ہو جائے تو یہ عالمی معیار کے مطابق ہو گا اور کالاباغ ڈیم نے سارا پانی تو نہیں روک لینا۔ سمندر میں ایک معقول حد تک تو پانی بھر بھی گرتا رہے گا۔ ویسے بھی سندھ اور کراچی سمندر سے7 میٹر اونچائی پر واقع ہیں ۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ سمندر کا پانی کراچی میں گھس آئے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کالاباغ ڈیم بننے سے سندھ کی دس لاکھ ایکڑ اراضی سیراب ہو گی تو سندھ کا ہاری خو شحال ہو کر زندہ ہو سکتا ہے۔شاید یہ قبول نہیں ۔
    شاید طے کر لیا گیا ہے کہ سندھ میں صرف بھٹو زندہ رہے گا کوئی غریب ہاری زندہ نہیں رہ سکتا۔

    بعض قوتیں ٹھان چکی ہیں کہ پاکستان کو کالاباغ ڈیم بنانے سے روکنا ہے۔ یہ ڈیم پاکستان کو ایک روشن دور میں داخل کر سکتا ہے۔
    چنانچہ اس کے خلاف ایک جذباتی ماحول بنا دیا گیا ہے۔ دیا میر بھاشا ڈیم کو کالاباغ ڈیم کا متبادل بنا کر پیش کرنا بھی اسی مزاحمتی بیانیے کا ایک حصہ ہے ۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ دونوں میں کوئی تقابل ہی نہیں۔
    کالاباغ ڈیم آپ کی سترہ لاکھ ایکر اراضی کو سیراب کرے گا اور دیامر بھاشا ڈیم سے تو ڈھنگ کی دو نہریں نہیں نکل سکتیں کیونکہ وہ پہاڑی علاقہ میں واقع ہے۔ نکل بھی آئیں تو کس کام کی۔۔۔؟
    جغرافیائی سمجھ بوجھ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
    تاہم فی الوقت قوم کو چاہیے کہ اس جھوٹے اور دیرینہ سیاسی پراپیگنڈے کو سمجھے اور ہر فورم پر ناکام بنائے۔۔۔۔ اور ایک بہتر #پاکستان کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرے۔۔۔
    ورنہ ایک بدترین قحط اور بحران ہمارے منتظر کھڑے ہیں۔۔۔

    #پاکستانی
    #ڈیم_بناؤ_پاکستان_بچاؤ
    #ڈیم_نہیں_تو_ووٹ_بھی_نہیں

    جواب دیںحذف کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.