مجھے گن دو یا سن دو
تحریر: شاہد انجم
دھوتی کا پلو اوپر
کرکے گلی میں داخل ہونے والے شخص نے تجسس بھری نگاہوں سے اپنے
دروازے کی طرف دیکھا اور سوچنے لگا کہ میرے گھر کے باہر اتنی غلاظت کے ڈھیر اور کیچڑ ہے اس کے باوجود میرے گھر کے باہر لوگ
اتنی بڑی تعداد میں کیوں موجود ہیں۔
اس وقت میری بیٹیاں
تو مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے جاتی ہیں اور بیٹا بھی ٹیوشن سے واپس آیا ہی ہوگا جو
کہ میرا انتظار کررہا ہوگا کہ آج ہم افطار کے بعد بازار جائینگے جہاں عید کے لیے کپڑے
اور جوتے لانے ہیں۔ بیٹے کی شاپنگ کے بعد پھر ایک روز اپنی بیٹیوں کو بھی عید کی خریداری
کروانی ہے۔ یہ بات سوچتے ہوئے گھر میں داخل ہورہا تھا کہ گھر کے انگن میں اس کی بیوی
اور بیٹا سہمے ہوئے بیٹھے تھے اور ان کے پاس دو چھوٹی بیٹیاں زندگی کے جھمیلوں سی ناآشنا
ایک دوسری سے توتلی زبان میں میرے آنے کا بیان کررہی تھیں۔
میں نے ہڑبڑاتے
ہوئے انداز میں اپنی بیوی سے پوچھا کیا ماجرا ہے اتنے لوگ دروازے کے باہر کیوں جمع
ہیں اور میرا بیٹا بنٹی جس کی عمر چودہ سال تھی پریشان لگ رہا ہے اس کے چہرے پر تشدد
کے نشانات بھی موجود ہیں جس پر میری بیوی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں
میں آپ کو بتاتی ہوں۔
میں نے گھر کا دروازہ
بند کیا تو بیوی مجھے دوسرے کمرے میں لے گئی اور کہا کہ یوسف ہمارا بیٹیوں کا ساتھ
ہے اور ایک ہی بیٹا ہے جسے میں کھونا نہیں چاہتی لہذا ہم اس محلے سے کہیں دور کہیں
چلے جائیں تاکہ زندگی کے باقی دن سکون سے گزار سکیں۔
آج جو کچھ ہوا مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے دو غنڈے آج
گھر کے دروازے پر آئے دروازہ بجایا تو میں نے بنٹی سے بولا دیکھو بیٹا کون ہے بنٹی
کے دروازہ کھولنے پر انہوں نے ایک کاغذ کا ٹکرا بنٹی کو دیتے ہوئے کہا کہ شام تک اتنی
رقم ہمیں چاہیے جس پر بنٹی نے جواب دیا کہ میرے بابا گھر پر نہیں ہیں اور آپ یہ رقم
کس مد میں ہم سے مانگ رہے ہو جس پر ان غنڈوں نے جواب دیا کہ یہ بھتے کی پرچی ہے اور
تمہیں نہیں پتا کہ عید قریب ہے ہرسال اسی طرح
رقم جمع کرتے ہیں۔
بنٹی نے یہ بات
سن کر بھتہ دینے سے انکار کرتے ہوئے پرچی غنڈوں کو واپس کی جس پر انہوں نے بنٹی کو
تشدد کا نشانہ بنایا۔ بنٹی کے شور مچانے پر اہل محلہ جمع تو ہوئے مگر کسی نے ان سے
اس زیادتی پر نہ تو کوئی سوال اٹھایا اور نہ ہی انہیں روکا۔ غنڈے اسلحہ لہراتے ہوئے
واپس چلے گئے۔
بیوی کی بات سن
کر یوسف نے فیصلہ کیا کہ تمام معاملے کی شکایت سیکورٹی اداروں سے کروں گا دوسرے روز
یوسف نے شہر میں موجود سیکورٹی پر مامور اداروں کو ایک تحریری درخواست شکایت کی صورت
میں درج کروائی جس پر سیکورٹی اداروں نے کوئی کارروائی نہ کی بلکہ یوسف کی یہ درخواست
کسی طرح ان غنڈوں تک پہنچ گئی۔
انصاف کا طلبگار
یوسف اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ اب اس کا ان بھتہ خوروں سے چھٹکارا ہوچکا ہے مگر
قسمت کو شاید یہ منظور نہ تھا۔ اگلے ہی روز ان غنڈوں نے دوبارہ یوسف کے گھر پر حملہ
کیا اور فائرنگ کرکے ان کے بیٹے بنٹی کو قتل کردیا۔ قتل کی اس اطلاع پر سیکورٹی ادارے
کے اہلکار جب ان کے گھر پہنچے تو یوسف نے سیکورٹی ادارے کے اہلکار کو چیخ کر کہا کہ
میں نے دو روز قبل اس معاملے کی تحریری شکایت درج کروائی تھی اب مجھے خدارا ۔۔۔گن دو
یا پھر مجھے میرا سن دو ۔۔۔
سیکورٹی اہلکار
نے یوسف کو گلے لگاتے ہوئے کہا کہ ہم مجبور ہیں، حاکم وقت کی طرف سے ہمیں ایسے جرائم
پیشہ افراد کے خلاف کاروائی کے اختیارات نہیں ہیں۔ ظلم تو ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا
ہے وقت نے پلٹا کھایا اور حکومت وقت میں یہ سوچ بیدار ہوئی کہ آخر کار اسے اس ظلم کا
حساب بھی تو کسی اور عدالت میں دینا تو پڑے گا۔
حکومت نے ان دہشت
گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف باقاعدہ آپریشن کا اعلان کیا اور سیکورٹی اداروں
کو مکمل اختیارات دیئے تاکہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کی رونقیں بحال کی جائیں۔ کاروائیوں کا آغاز ہوا اور سینکڑوں دہشت گرد و جرائم
پیشہ افراد مارے گئے یا گرفتار کرلیے گئے۔
اس آپریشن کے دوران
کئی اہلکاروں نے جام شہادت بھی نوش کیا اور اب کہا جانے لگا ہے کہ کراچی میں امن قائم
ہوگیا ہے۔ البتہ اگر دیکھا جائے تو بعض جرائم پیشہ افراد کو عدالتوں سے عدم ثبوت کی بنا پر رہائی مل چکی
ہے جوکہ تفتیشی حکام کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ خدشات بھی سر ابھار رہے ہیں کہ کہیں
ایسا نہ ہو کہ کوئی اور یوسف یہی سوال کرے کہ "گن دو یا سن دو"۔
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment