کارکنان کی بدنظمی سیاسی آگہی کا فقدان؟

PTI ticket chaos in Karachi


تحریر: شاہد انجم

سرزمین پر ایسے حالات کیوں پیداہوگئے ہیں برادریوں کے جھگڑے خاندانوں میں انارکی۔ ایک دسترخوان رہا  نہ ہی بھائی بھائی سے خوشدلی سے گلے مل رہا ہے ۔ یہ بات حاکم خان اپنے ڈیرے پر بیٹھ کر چند حواریوں سے سوال کررہا تھا جو وقتی طور پر تو اسکی ہاں میں ہاں ملاتے تھے مگر دل ہی دل میں زہر اگلنے کے لیے اپنی اپنی سواری پر بیٹھ کر ان باتوں کا تذکرہ کہیں اور جاکر اپنے حمایت یافتہ دھڑوں میں کیا کرتے تھے۔

 حاکم خان چونکہ اس سلطنت کے رسم ورواج کو بہت گہرائی سے نہ تو جانتا تھا اور نہ ہی یہاں کے زمینی حقائق سے واقف تھا۔ وہ یہاں کے چند ایسے خوشامد کرنے والے افراد کی بات پر ہی فیصلے صادر فرمانے کا عادی ہوچکا تھا۔  اپنے محل سے وہ صرف اس وقت نکلتا تھا جب اسے یقین ہو جاتا تھا کہ اس کے لیے کاغذی پھولوں کا اسٹیج تیار ہوچکا ہے زرق برق کپڑے پہنے لوگ اسکے اطراف میں جب گھومتے تھے تو وہ اپنی کم عقلی کی وجہ سے یہ نہیں سمجھ پاتا تھا کہ یہ لوگ جگنوؤں کی طرح راتوں میں اسے راستہ دکھانے کے بہانے  اس کا رخ جنگل کی طرف موڑ دیتے تھے۔

حاکم خان پڑھا لکھا اور باشعور تو تھا مگر جس معاشرے کی تہذیب وتمدن میں اس نے آنکھ کھولی اور جوانی کے دن گزارے تھے وہاں اور حقیقی زندگی میں ایک خلیج تو بہر حال تھی، جسے آہستہ آہستہ وہ ختم کرکے اپنے آباؤاجداد کے رہن سہن میں واپس آہی جائے  گا۔  

اس قصہ کو سن کر مجھے ملک تیسری بڑی سیاسی جماعت کا دعویٰ کرنے والی پاکستان تحریک انصاف کی ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں واقع پارٹی کے دفتر میں ہونے والی بدنظمی اور ہنگامہ آرائی یاد آگئی ۔

یہاں ملک میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات میں قومی وصوبائی اسمبلی کی سیٹوں کی بندر بانٹ کی اطلاع پر پارٹی کے کارکنان کی ایک بڑی تعداد انصاف ہاوس پہنچی اور اس نے اپنے اپنے حلقے کے امیدواروں کو ٹکٹ دلوانے کی بات کی جس پر تحریک انصاف کی پارلیمانی کمیٹی کے بعض ارکان سیخ پا ہوگئے اور کارکنان کی طرف سے انکے جانبدار ہونے پر شک کیا گیا جس  کے بعد کارکنان نےجذباتی انداز میں نعرے بازی کی اور کہا کہ یہاں پسند اور نا پسند کو ترجیح دی جاری ہے یہ سیاست نہیں ہم اسکے خلاف شدید احتجاج کرتے ہیں۔

کارکنوں کی اس اشتعال انگیزی پر بعض پارلیمانی کمیٹی کے  اراکین نے انہیں برا بھلا کہہ کر خاموش رہنے کی ہدایت کرنا چاہی مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے جہاں تربیت سیاسی تہذیب وتمدن کی تعلیم نہ دی گئی ہو وہاں ایسے حالات پیدا ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ 

سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کا رویہ جیسا ہوگا کارکن بھی اسی طرح سے اپنی زبان میں شائستگی اور بھڑکپن کا مظاہرہ کریں گے، لہذا ہونا تو یہ چاہیے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی کارکنوں کے لیے سیاست پر  آگہی نشت ہو جس کے ثمرات  کارکنان تک پہنچیں  تاکہ سیاسی ماحول گرم ہو مگر زبان میں محبت اپنائیت اور خوشدلی واضح نظر آئے۔ 

اگر رہنماؤں نے اپنا رویہ تبدیل نہ کیا تو کارکنان جو کسی بھی سیاسی جماعت کی اساس کہلاتے وہ اساس اگر ہلنا شروع ہوگئی یا کمزور پڑ گئی تو عمارت کی پختگی کی بجائے معمولی سا سیاسی بھونچال آنے سے وہ گر بھی سکتی ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس سیاسی آگہی کے فقدان کے باعث کارکنان کے ہاتھ اپنی پارٹی کے رہنماوں کے گریباں تک نہ پہنچ جائیں، ذرا سوچیئے ذرا سوچیئے!

مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.