شہد، کھجور اور میوہ جات کا نشہ

PTI, Imran Khan and dry fruits

تحریر: شاہد انجم

ناشتے میں شہد کھجور اور مکمل غذائیت سے بھری اشیاء میرے اٹھنے سے قبل ٹیبل پر ہونی چاہیے۔ یہ تمام چیزیں نایاب لگ رہی تھیں مگر اس سے کہیں زیادہ  ضعیف العمر شخص کی صحت کا خیال رکھنا تھا جس کا قول مشہور ہوچکا تھا کہ میں اس سر زمین کی تقدیر کو بدل کر رکھ دوں گا۔

چہرے پر غصہ ماتھے پر سلوٹ دیکھ کر اس کے حواری کسی بھی طرح اس کی خوہشات سے انکاری نہیں ہوسکتے تھے  سب کو آنے والے وقت میں رنگنیاں نظر آرہی تھیں اور وہ شاید اس بھول میں تھے کہ جس کی خدمت پر مامور ہیں وہ بڑے فیصلے کرنے جارہا ہے۔

روزانہ دنبے اور بکروں کی دیسی گھی میں خاص مصالحہ جات لگا کر بنائی گئی کڑاھی نوش فرمانا بھی اس کی عادت میں شامل تھا۔ عام شخص اگر قریب سے گزر جاتا اس کے محافظوں کو شدید ڈانٹ پڑنے کے ساتھ ساتھ آئندہ کسی شخص کے وہاں سے نہ گزرنے کی ہدایت بھی دی جاتی۔

خاص طور پر اچھے رہن سہن اور امیر خاندانوں کی خواتین اور مردوں کو اپنی محافل میں بٹھانا  اس کی عادت میں شامل تھا۔ دور دراز سے لوگ اس کی  پسند کی چیزیں لے کر اس کی خدمت میں پیش ہوتے اور وہ عادتا فطرتا اتنی دیر ان کے ساتھ گزارتا جب تک اس کے خاص چیلے اسے یہ پیغام نہ دیتے کہ آنے والا سامان اس کے لیے کتنا مفید ہے۔

قریب قریب گاؤں کے لوگ اگر کبھی اس کے پاس اپنی کوئی خواہش یا درخواست لے کر بھی جاتے تو بجائے اس کے کہ وہ ان سے خوشدلی سے ملتا انہیں کمتر سمجھ کر اپنے قریب آنا تو دور کی بات انہیں اپنا مبارک چہرہ بھی دکھانے میں کوتاہی سے کام لیتا۔

اس شخص کے بارے میں بعض لوگوں کو یقین تھا کہ وہ سچا اور عدل کرنے والا انسان ہے جس کی وجہ سے وہ ان کے مخالفین کے سامنے اس کے  قصیدے پڑھتے اور بعض تو جذبات میں اتنا آگے نکل جاتے کہ اسے دیوتا کا روپ دے کر اپنی جانین قربان کرنے کی بات کرتے۔

 البتہ اس کے بعض قریبی لوگ یہ بخوبی جانتے تھے کہ جو میوہ جات اس بزرگ کے لیے لائے جاتے ہیں وہ شاید ان کے مذہب کے برعکس ہیں، حرام ہیں، اور جسے استعمال کرنے کے بعد وہ کوئی اچھا فیصلہ نہ کر پائے گا۔ یہ خوف تو بزرگ کے ارد گرد رہنے والے لوگوں کو تھا ایک روز ان کے ساتھ بھی وہ ہی سلوک ہونا ہے جو دوسرے لوگوں کے ساتھ ہورہا ہے مگر وہ شاید اس ماحول میں اتنے عادی ہوچکے تھے کہ اب وہ اسے رکھ سکتے تھے اور نہ ہی چھوڑ سکتے تھے۔

یہ کہانی پڑھ کر مجھے ملک میں آئندہ ہونے والے عام انتخابات میں امیدواروں کی طرف سے جمع کرائے جانے والے کاغذات نامزدگی اور


ٹکٹوں کی بندر بانٹ یاد آئی، جس میں ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت اور آئندہ  انتخابات  میں جیت کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعت بھی حصہ لے رہی ہے۔

اس جماعت کی جانب سے امیدواروں کو جاری کردہ ٹکٹوں کی فہرست منظر عام پر لانے کے بعد یہ  نتیجہ اخذ ہورہا ہے کہ جیسے نادرا نے اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کو قومی شناختی جاری کیے ہیں اور شناختی کارڈ کے حامل لوگ آج بھی قطاروں میں کھڑے، ہاتھ میں ٹوکن لیے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔

شاید نادرا کم عمر بچوں کو شناختی کارڈ جاری کرکے فیس لینے کی ہوس میں اندھی ہوچکی ہے، شاید وہ یہ بھول گئے ہیں کہ بالغ اور نا بالغ میں بہت فرق ہوتا ہے کسی نے کیا خوب اور شاید اس موقعہ کی مناسبت سے بہتر ہی کہا ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے اور تیر ابھی بھی کمان سے نکلا نہیں ہے ایسا نہ ہو کہ تھوڑا اور وقت گزر گیا تو کھلاڑی اپنا مورچہ بدل کر ایسے تیر برسائیں کہ آپ کے خیالی محل کی دیواریں چھلنی ہوجائیں اور پھر آپ زندگی بھر ان دیوروں کے سوراخ بھرتے بھرتے اگلے مقابلے کے لیے خود کو تیار ہی نہ کرپائیں۔

اس لیے کہ محبت جب نفرت میں بدلتی ہے تو اس کی شدت میں کئی گناہ اضافہ ہوجاتا ہے لہذا اب بھی  شہد کھجور اور میوہ جات کے نشے سے باہر نکلیے تاکہ آپ کوئی اچھا اور دیرپا فیصلہ کرپائیں۔

 اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.