اب جبرائیل مصافحہ کرنے نہیں آتے!
تحریر: عبید شاہ
پہلا روزہ رکھنے
کی ضد کی تو ستائیسویں شب کو سحری کرنے کی اجازت ملی۔ دادی نے کہا بڑی رات ہے اس دن
روزہ رکھو۔
ابو نے کہا اس رات
عبادت و توبہ قبول ہونے کی نشانی ہے کہ جبرائیل امین مصافحہ کرنے آئیں گے۔
وہ کیسے! ہمارا تو رات کو دروازہ بند ہوتا ہے۔
کیا صحن میں آئیں
گے؟
مجھے کیسے
پتہ چلے گا؟
ٹائم کیا
ہوگا؟
اتنے سوال سن کر ابو نے کہا پتہ چل جائے گا، تمہارا جسم کوئی زور سے دبوچے تو سمجھ جانا جبرائیل امین
تم سے مصافحہ کر رہے ہیں۔
نورانی قاعدہ
ختم کر کے سپارہ پڑھنا شروع ہی کیا تھا، پنج پارہ مجھے لاکر دیا گیا تھا، جزدان میں
لپیٹے اپنے پارے کو پڑھتا رکھتا اونگتا صحن میں جھومتے آم کے پیڑ کو جبرائیل کا سایہ
سمجھتا تو کبھی پپیتے کے درخت کا سایہ مجھے جبرائیل کا قد لگتا۔
عبادت کے نام پر
چھ کلمے تسبیح اور پڑھانے والی خالہ کا دیا ہوا ایک پیراگراف کا سبق پڑھتا، نوافل میں
اخلاص و کوثر کے علاوہ کچھ آتا نہ تھا۔ رحل پر منہ گرائے ہجوں کیساتھ ترتیل جاری تھی
کے جسم پر منوں بوجھ محسوس ہوا، جسم دبتا چلا گیا اور پھر اچانک ہلکا ہوگیا۔
دو کمروں کا مکان
بھی اس وقت محل کی طرح وسیع لگنے لگا دبی دبی سی چیخ کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھے امی
ابو کی طرف دوڑا۔
ہاتھ ملایا مجھ
سے جبرائیل نے ہاتھ ملایا، ابو مجھے ویسا ہی لگا جو آپ نے کہا تھا۔ ہاں، ہاں اچھی بات
ہے، اب سحری کرو۔
وقت گزرتا گیا،
علم میں اضافہ ہوتا گیا، پتہ چلا شب قدر سے
مراد ضروری نہیں کہ ستائیسویں شب ہی ہو، لیلة القدر کو تو طاق راتوں میں ڈھونڈنا ہوتا
ہے۔
پھر پتہ چلا کے
لیلة القدر کی نشانی ہے کہ موسم معتدل ہوگا آسمان روشن ہوگا درخت جھکے ہوئے ہوں گے اور جانور بالخصوص کتے بھونکنا بند کردیں گے۔ علم بڑھتا گیا تو اجتہاد بھی بڑھتا رہا۔
نہیں نہیں ضروری
نہیں یہ طاق رات شب قدر ہو۔ آرام کرو سحری پر اُٹھتے ہیں۔
ہمممم! آسمان روشن
نہیں، موسم ٹھنڈا بھی نہیں، نہ نہ آج بھی شب
قدر نہیں۔
آج تو تمام نشانیاں
شب قدر کی ہیں، چلو! مسجد جا کے نوافل ادا کریں لیکن گلی کے نکڑ پر کھڑا آوارہ کتا، بھونک
کر شب قدر کو مشکوک بنا دیتا تھا۔
بچپن کے بعد سے
نہ شب قدر ملی اور نہ ہی جبرائیل امین مصافحہ کرنے آئے پتہ ہے کیوں؟ جب یقین کی
منزل کھو جائے اور علم کو فرار کے راستے کے لیئے استعمال کیا جائے تو جبرائیل ہاتھ
نہیں ملاتے۔
اس تحریر کے مصنف عبید شاہ ایک نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نوجوان صحافی نے کم عرصے میں میدان صحافت میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان سے فیس بک پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment