شہداء کے نام پر ووٹ مت مانگو
تحریر: شاہد انجم
نارنگ منڈی سے
چند کلو میٹر کے فاصلے پر چھوٹا سا گاؤں راج پورا جو کہ پاک و ہند کے بٹوارے سے قبل
پانچ دہائیوں سے آباد ہے اور یہاں سے پاک بھارت سرحد کا فاصلہ ایک کلو میٹر
سے بھی کم ہے۔ رسم و رواج تقریباً آج بھی ایک جیسے ہیں۔ آذان کی آواز بھارت میں اور گوردوارے میں سکھوں کی عبادت اور ان کے بھجن اس پار کے
گھروں میں با آسانی سنے جاسکتے تھے۔
بٹواے کے وقت ان کی عمر تقریبا ساٹھ سال سے زیادہ تھی، پھر
بھی اپنی روز مرہ کی مصروفیات کو کبھی ترک نہیں کیا کرتے تھے۔ یہ قصہ ہے شہاب الدین
کا جن کو اس گاؤں کا بابا جی بھی کہا جاتا تھا۔
تقریبا ایک سو تیس سال سے زائد کا عرصہ دنیائے فانی میں گزار کر جب وہ سفر آخرت
پر روانہ ہوئے تو انہوں نے اپنی
بیٹیوں کو بلوا کر کہا کہ مجھے اس گاؤں اور قریب قریب دیگر گاؤں کے لوگ جس کردار
سے جانتے ہیں آپ بھی اپنی اولاد کو اسی طرح کا بنائیں تا کہ لوگ ان سے بھی محبت کریں۔
شہاب الدین ایک
وضو میں تہجد سے لے کر عشاء تک کی تمام نمازیں ادا کیا کرتے تھے اور میری ان کی
کئی ملاقاتیں رہیں۔ ایک بار انہوں نے مجھے
بتایا کہ جس دن سے میں نے ہوش سنبھالا ہے مجھے یاد نہیں کہ کبھی میری تہجد قضاء
ہوئی ہو۔ ان کا روشن اور مطمئن چہرہ آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ ان
کی وفات کے بعد ان کی دو بیٹے اور دو بیٹیوں میں سے کوئی بھی ان کے نقش قدم پر
نہیں چلا۔ لوگ شہاب الدین کو ضرور یاد
کرتے مگر ان کی اولاد اور اولاد کی اولاد کو
ان کے ساتھ منسلک کرنے سے کتراتے۔
شہاب الدین
اپنی جوانی میں پیدل سفر کر کے بہت خوش ہوتے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ پیدل چلنا
صحت کے لیے بہت اچھا ہوتا ہے۔ شہاب الدین کی زندگی پر اگر نظر ڈالی جائے تو آج ان
کے پوتے اور نواسے ان کے نقش قدم سے ہٹ چکے ہیں جس کی وجہ سے آج اس گاؤں میں اگر ان
کے نواسے کبھی آبھی جائیں تو کوئی ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔
شہاب الدین کا
یہ قصہ سن کر مجھے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی انتخابی مہم کا
آغاز یاد آگیا۔ بلاول عوام سے بات چیت میں اپنی والدہ شہید بےنظیر بھٹو کے نام پر
ووٹ مانگ رہے ہیں۔ اپنی عمر کے لحاظ سے جو منزل وہ طے کرنا چاہ رہے ہیں اس کا
راستہ بہت لمبا ہے اور بلاول یہ گردان بھی کررہے ہیں کہ میں اپنے نانا ذوالفقار
علی بھٹو کی سوچ اور اپنی والدہ کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچاؤں گا۔
میں بلاول بھٹو
زرداری سے سوال کرتا ہوں کہ کیا آپ نے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح سیاست میں وہ
تکالیف برداشت کیں؟ کیا آپ کی سوچ اپنی والدہ محترمہ شہید بے نظیر بھٹو جیسی ہے؟
کیا آپ اپنے نانا اور والدہ کی طرح عوام میں گھل مل جاتے ہو؟ کیا آپ نے کبھی
بغیر ایئر کنڈیشنڈ گاڑی میں ایک کلو میٹر کا بھی سفر کیا ہے؟ کیا آپ نے اس ملک کے
کچے راستوں اور پگڈنڈیوں پر سفر کیا؟ کیا آپ نے کبھی جیکب آباد اور سبی کی گرمی
برداشت کی؟
کیا آپ نے کبھی
ٹرین کی اکانومی کلاس میں سفر کیا ہے؟ کیا تمہیں پتہ ہے کہ ملک کے آج بھی بیشتر
علاقوں میں لوگ گدھا گاڑیوں میں سفر کرتے
ہیں؟ کیا آپ نے کبھی دریائے چناب سے پانی پیا؟ اور اگر یہ تمام چیزیں آپ نے نہیں کیں تو پہلے
اس ماحول کو اپناؤ تاکہ عوام تمہیں پسند کریں کہ آپ ان میں سے ہو اور اگر ایسا
نہیں کر سکتے تو ان شہداء کے نام لے کر عوام کو بے وقوف مت بناؤ۔
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment