پھر کڑاہی کی جگہ دماغ میں پکوڑے تلنا شروع ہوجاتے ہیں
رم جھم کے ترانے لے کر آیا ساون کا موسم۔ فضا میں کوئل کی کوک، گھنگھور گھٹاؤں اور رم جھم کے دلفریب نظارے۔ ایسے میں موسیقی کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ جہاں مختلف شہروں میں شہری ’’آئے موسم رنگیلے سہانے جیا نہیں مانے‘‘ کا راگ الاپ رہے ہیں وہیں ہم گلزار کی فلم’’کنارا‘‘ کے لئے لکھا گیا گیت ’’اب کے نا ساون برسے” کا ورد کر رہے ہیں وہ بھی دعائیہ انداز میں۔
لوگ یہ پڑھ کر کہ ہم بارش کے نہ ہونے کی دعا کر رہے ہیں شاید ہمیں بدذوق تصور کریں لیکن نہیں جناب ایسا ہر گز نہیں ہے۔ اہل ذوق، اہل دل، ادیبوں اورشاعروں کی طرح برسات کا موسم ہمیں بھی بڑا اچھا لگتا ہے۔ بارش کی بوُندوں کا مٹی کو مہکانا، بجلی کا چمکنا اور بادلوں کا گرجنا ہمیں بھی پسند ہے۔
دوسروں کی طرح ہم نے بھی ہمیشہ ساون کا انتظار کیاہے ، اس موسم کو “انجوائے” کیا ہے، بارش کے پانی میں “کاغذ کی کشتی” چلائی ہے۔ لیکن کیا کریں جناب! کراچی میں بارش کے سائڈ افیکٹس کاسوچ کر ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔ کراچی میں ذرا سی بارش مسائل کے پہاڑ کھڑے کر دیتی ہے ۔
ادھرقدرت مہربان ہوتی ہے تو ادھرکے الیکٹرک بھی کرم نوازی کے در وا کر دیتی ہے۔ نتیجے کے طور پر بارش میں نہانے والے پسینے میں نہا رہے ہوتے ہیں۔ سڑکیں اور گلیاں سوئمنگ پول بن جاتی ہیں، جہاں سے کوئی خوش قسمت بچ جائے تو کیچڑ میں پھنسنا اُس کا مقدر ضرور بنتا ہے۔
ادھرقدرت مہربان ہوتی ہے تو ادھرکے الیکٹرک بھی کرم نوازی کے در وا کر دیتی ہے۔ نتیجے کے طور پر بارش میں نہانے والے پسینے میں نہا رہے ہوتے ہیں۔ سڑکیں اور گلیاں سوئمنگ پول بن جاتی ہیں، جہاں سے کوئی خوش قسمت بچ جائے تو کیچڑ میں پھنسنا اُس کا مقدر ضرور بنتا ہے۔
ابھی بارش کےامتحاں اور بھی ہیں کے مصداق نئی پریشانی اس وقت شروع ہوتی ہے جب بارش کے پانی کے ساتھ گٹروں، نالیوں اور سیوریج کا گندا پانی بھی اظہار یکجہتی کرتے ہوئے گھروں میں داخل ہوجاتاہے۔
گھروں سے پانی نکالنے، کیچڑ میں پیدل چلنے، اور پانی سے بچنے سے فراغت ملتی ہے تو گھر والوں کی پکوڑوں کی فرمائش شروع ہوجاتی ہے جسے پورا کرنے کے لئے کچن کا رخ کریں تو وہاں نل سے آنے والی ہوا پانی کے نہ ہونے کی خبر سنارہی ہوتی ہے۔ تحقیق پرمعلوم ہوتا ہے کہ بارش کی وجہ سے پمپنگ اسٹیشنز پر بجلی کی فراہمی معطل ہے لہذا پانی کب آئے گا کچھ پتا نہیں اورپھر کڑاہی کی جگہ دماغ میں پکوڑے تلنا شروع ہوجاتے ہیں۔
گھروں سے پانی نکالنے، کیچڑ میں پیدل چلنے، اور پانی سے بچنے سے فراغت ملتی ہے تو گھر والوں کی پکوڑوں کی فرمائش شروع ہوجاتی ہے جسے پورا کرنے کے لئے کچن کا رخ کریں تو وہاں نل سے آنے والی ہوا پانی کے نہ ہونے کی خبر سنارہی ہوتی ہے۔ تحقیق پرمعلوم ہوتا ہے کہ بارش کی وجہ سے پمپنگ اسٹیشنز پر بجلی کی فراہمی معطل ہے لہذا پانی کب آئے گا کچھ پتا نہیں اورپھر کڑاہی کی جگہ دماغ میں پکوڑے تلنا شروع ہوجاتے ہیں۔
کراچی میں بارش کا یک تحفہ ٹریفک جام بھی ہے، ٹریفک اہلکارشہر اللہ کے حوالے کر کے شاید سہانا موسم انجوئے کرنے نکل پڑتے ہیں، نتیجے کے طور پرٹریفک سگنلز اور اہلکاروں سے خالی چورنگیاں شہریوں کو منہ چڑا رہی ہوتی ہیں۔ ایسے میں کسی گاڑی سے کشور کمار کا گایا ہوا نغمہ “رم جھم گرے ساون سلگ سلگ جائے من” سنائی دیتا ہے تو اہل کراچی کا دل واقعی سلگ سلگ جاتا ہے۔
شنید ہے کہ ساون وائرس کراچی کو لپیٹ میں لینے کو تیار ہے۔ محکمہ موسمیات نے آندھی کے ساتھ طوفانی بارش کی پیشگوئی کی ہے۔ بھارت میں بارشوں سے تباہی پھیلانے والا اسپیل دس جولائی سے کراچی میں اپنا رنگ جمانے آرہا ہے اور لاہور میں بارش سے پیرس کے وینس بننے کے منظر نے ہمارا دل دہلا دیا ہے۔ ذرا سوچیں! لاہور سے آدھی بارش بھی اگر کراچی کو نصیب ہوگئی تو ہم اہل کراچی کا کیا بنے گا ؟
کراچی کو اپنا کہنے کی دعویدار شہری انتطامیہ کی ناکام حکمت عملی اور دس سال سے برسر اقتدار حکومت کی نااہلی نےکراچی کو ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ کراچی تو اب ایسا شہر بن گیا ہے کہ اسے تباہ کرنے کے لئے کسی بم اور مہلک ہتھیاروں کی ضرورت نہیں، اس کے لئے تو بارش ہی کافی ہے۔ لہٰذا کراچی کو ڈوبنے سے بچانے کے لئے “اب کے نا ساون برسے” کی دعا ہم کیوں نہ کریں، آپ ہی بتائیں ہماری یہ دعا غلط تو نہیں؟
برسات کا بادل تو دیوانہ ہے کیا جانے
کس راہ سے بچنا ہے کس چھت کو بھگونا ہے
اس تحریر کی مصنفہ قمر تابندہ کہنہ مشق صحافی ہیں اور مختلف اخبارات و جرائد سے وابستہ رہی ہیں۔ آج کل وہ ایک معرف نیوز ٹی وی چینل میں پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment