مالِ مفت، دلِ بے رحم
تحریر: فرحانہ نیازی
یہ میرا چمچہ ہے
چمچ چھوڑیں
ارے نورین، بوٹیاں
زیادہ لے کے آنا، اور کولڈ ڈرنک بھی دو، دو ہی لانا۔
پچھلے دنوں ایک
شادی میں جانا ہوا، تو ایسی آوازیں کانوں سے ٹکرا رہیں تھیں۔ شادی ہو یا کوئی دیگرتقریب، کھانا کھلتے ہی مرد
و خواتین کی جو دوڑیں لگتی ہیں، مت پوچھیئے۔
کوئی چمچ کے لیے
جنگ کرتا ہے تو کوئی بوٹیوں کی تلاش میں تھال میں اپنے چمچے سے چپو چلا رہا ہوتا
ہے، بعض کا پلیٹوں میں بوٹیوں کا پہاڑ کھڑا کرنے کے بعد بھی یہ ہی شکوہ ہوتا ہے کہ
کھانے میں بوٹیاں زیادہ نہیں تھیں۔
بعض اوقات کھانا
لینے کے دوران پانی پت کی جنگیں بھی چھڑ جایا کرتی ہیں۔ کولڈ ڈرنک تو دو سے کم لینی
ہی نہیں۔ میٹھے کی پلیٹ لبالب بھرلی جاتی ہے کہ دوبارہ شاید موقع نہ ملے۔
اچھے خاصے مہذب
مرد اور میک اپ سے اٹی ہوئی، لہک لہک کر باتیں کرتی خواتین کھانا کھلتے ہی جو جھپٹتی
ہیں تو گویا قیامت کا سا سماں ہوتا ہے۔ پیٹ بھر کے کھانے اور پلیٹ میں بہت زیادہ بچانے
کے بعد بھی یہ ہی شکوہ ہوتا ہے کہ سالن اچھا نہیں تھا، بریانی میں مصالحہ کم تھا۔ یہ
اور ایسے کئی نقائص نکالے جاتے ہیں۔
جس کا جو جی
کرتا ہے بولتا ہے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ جنہوں نے اس تقریب کا اہتمام کیا ہوتا ہے،
وہ بیچارے نہ جانے کب سے اس ایک خاص دن کے لیے پیسے جمع کر رہے تھے یا پھر سفید پوشی
کا بھرم رکھتے ہوئے نہ جانے کتنی دقتوں سے یہ تمام اہتمام کر پا رہے ہیں، لیکن ہم ان
کے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر کے آجاتے ہیں۔
ہر تقریب میں پلیٹ
میں بچا ہوا کھانا، کھانے والوں کی حرص کو بے نقاب کر رہا ہوتا ہے۔ اگرچہ مال پرایا
ہے مگر پیٹ تو اپنا ہی ہوتا ہے ناں۔ پلیٹ میں اُتنا ہی نکالیں جتنی بھوک اور پیٹ میں
گنجائش ہو اور کم پڑ جائے تو بے شک دوبارہ لے لیں لیکن رزق کو ضائع نہ کریں۔
اتنا ہی لیں تھالی
میں
بے کار نہ جائے نالی
میں
اس تحریر کی مصنفہ فرحانہ نیازی ابھرتی ہوئی صحافی ہیں۔ وہ ایک معروف نیوز چینل سے وابستہ رہی جبکہ انہیں ایک عالمی نشریاتی ادارے میں خدمات دینے کا تجربہ بھی ہے۔ آج کل وہ فری لانس صحافی ہیں۔ فرحانہ نیازی سے ٹوئیٹر پر رابطہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment