پہلے ایسا کیا کیا جو اب ووٹ دیں! امیدواروں کو شدید عوامی ردعمل کا سامنا
تحریر: صباء صابر
پانچ
سال حلقے کا منہ نہ دیکھنے والے سیاسی رہنماؤں نے جب اپنے حلقوں میں جانا شروع کیا
تو اپنی کار کردگی پر عوام سے منہ کی کھائی۔ مسلم لیگ ن ہو یا پی ٹی آئی، پپیلز پارٹی ہو یا ایم کیو ایم یا کوئی اور جماعت۔ اب امیدوار کسی بھی جماعت کا ہو۔ عوام سب سے پہلے کارکردگی کا حساب مانگ رہے ہیں۔
ووٹ
کیوں دیں؟ پانچ سال کیا کیا؟اتنے عرصے
کہاں تھے؟ ووٹ مانگنے آجاتے ہو مگر کام
نہیں کرتے۔ توبہ کرو توبہ۔ اللہ حساب لے گا۔ آج کل یہ جملے امیدواروں کو پریشان
کر رہے ہیں۔ نامی گرامی امیدوار ووٹ
مانگنے جاتے ہیں تو عوام ان سے پچھلی کاکرکردگی کا پوچھتے ہیں جس پر وہ آئیں
بائیں شائیں کرتے ہیں اور وہاں سے بھاگ جاتے ہیں ۔
شروع
کرتے ہیں لیاری سے جو پیپلز پارٹی کا گڑھ
سمجھا جاتا ہے۔ بلاول بھٹو زراری اور پیپلزپارٹی کےرہنما گڈانی میں جاں بحق افراد کی تعزیت کیلئے جیسے ہی لیاری پہنچے تو ناراض عوام نے ان کی گاڑیوں
کوگھیرلیا اور گو بلاول گو کے نعرے لگائے۔ ناراض شہریوں نے جم کر احتجاج کیا اور
شکوہ کیا کہ لیاری پی پی کے جیالوں کا گڑھ تھا لیکن پیپلزپارٹی نےانہیں بالکل بھلا
دیا۔
ناراض
کارکنان نے سوال کیا کہ لیاری میں گولیاں چل رہی تھیں، اس وقت پیپلز پارٹی کی
قیادت کہاں تھی؟ لیاری میں پانی کا مسئلہ کب حل ہوگا؟ حسب روایت بلاول صاحب کے پاس
ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔
بلاول بھٹو سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے
سینئیر رہنما خورشید شاہ اور مراد علی شاہ کو اندرون سندھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا
تھا۔پنو
عاقل میں خورشید شاہ کے خطاب کے دوران ایک نوجوان نے سوالات کی بارش کر دی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ
آپ دس سال حکومت میں رہے لیکن ہمارے علاقے میں پانی ہے اور نہ ہی کوئی سڑک بنی ہو
ئی ہے۔
کراچی میں جمعہ کی نماز کے بعد فاروق ستار نے میمن مسجد سے اپنی انتخابی
مہم کا آغاز کیا لیکن مہم شروع کرتے ہی فاروق ستار کو غصے میں بھرا شہری ٹکرا گیا جس نے انہیں اللہ سے توبہ کرنے کی ہدایت کی اورطعنہ دیا کہ کام کرتے نہیں ہیں
اور ووٹ مانگنے آگئے، جس پر فاروق ستار نے کہا کہ یہ حریف جماعت، جماعت اسلامی کا کارکن ہے جو انتخابی مہم کو متاثر کر رہا ہے۔
ایسا
ہی کچھ حیدرآبادکے علاقے لطیف آبادمیں ہوا،جہاں ایم کیوایم پاکستان کی مہم کے
دوران اہل علاقہ نے ایم کیوایم زونل کمیٹی کے ممبران سےپچھلی کارکردگی سےمتعلق
سوال کئے۔سوالات پرلیڈرز لاجواب ہوگئے اوراسٹیج چھوڑکر بھاگ نکلے۔
سابق
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو اس وقت لینے کے دینے پڑ گئے جب وہ اپنے انتخابی
حلقے میں جلسے سے خطاب کے لیے پہنچے۔کہوٹہ پہنچنے پر مظاہرین نے ان کی گاڑی کا
گھیراؤ کر لیا اور ووٹر کو عزت دو کے علاوہ گو منشی گو اور گو عباسی گو کے نعرے لگائے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ شاہد
خاقان عباسی نے راولپنڈی کہوٹہ روڈ ڈبل کرنے کا جو وعدہ کیا تھا وہ کہاں گیا، انہوں نے سو کلومیٹر نئی سڑک بنانے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن وہ بھی جھوٹا ثابت
ہوا۔ مظاہرین
نے یہ بھی یاد دلایا کہ سابق وزیراعظم نے یونیورسٹی بنانے کا اعلان تو کیا مگر اس
کی ایک اینٹ تک نہ لگی۔پولیس کی مداخلت سے سابق وزیراعظم مزید سوالات سے بچ نکلے۔
سابق وفاقی وزیرزاہد حامد بھی ووٹروں کےعتاب کانشانہ بنے۔ سیالکوٹ میں لوگوں
نے زاہد حامد کی گاڑی کو گھیرا اور چورچور کےنعرے لگائے۔
پاکستان
تحریک انصاف کے رہنما عارف علوی اور خرم شیرزمان ووٹ مانگنے گئے تو حلقے والوں نے
پانچ سال کا حساب مانگ لیا، پھر ان پر یہ مصرع صادق آیا
بڑے
بے آبرو ہوکے ترے کوچہ سے ہم نکلے
بہاولپور میں ن لیگ کے سابق وفاقی وزیر بلیغ
الرحمان کو عوام نے گھیرلیا، کہا اب کس لئے آئے ہو؟ پانچ سال کہاں تھے ؟ بلیغ الرحمان کو محلے میں جانے سے بھی روک دیا گیا۔
آج
کل بڑے بڑے سیاسی رہنماؤں کو شدید عوامی درعمل کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔حکمرانوں کو
عقل آئے نہ آئے لیکن اب لگتا ہے عوام کو ٹھوکر کھا کھا کر عقل آتی جا
رہی ہے۔
اس تحریر کی لکھاری صباء صابر ابھرتی ہوئی صحافی ہیں اور ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ ان سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی ٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment