پنکچر ستر کا، ٹیوب دو سو تیس روپے کی
تحریر: کاشف فاروقی
الیکشن کے دن صبح پہلے ووٹ ڈالا اور فوری بعد انتخابات
کی کوریج کرنا شروع کی۔ ماضی کے مقابلے میں صورت حال بہتر دیکھی لیکن انتخابی عملے
کی غلفت اور لاپرواہی کا عالم سابقہ انتخابات سے کچھ مختلف نہیں تھا مگر ووٹرز پھر
بھی پرامید تھے کہ اس بار کراچی کے مرحومین ووٹ ڈالنے نہیں آئیں گے اور زندہ افراد
جس کو ووٹ دیں گے اسی کو ملیں گے۔ پھر خبر یہ بھی آئی کہ گلشن اقبال میں ایک شہری ووٹ
ڈالنے پولنگ اسٹیشن پہنچا تو پتہ چلا کہ اس کا ووٹ کوئی پہلے ہی بھگتا چکا ہے البتہ
عملے نے قانون کے مطابق شہری کو ٹینڈر ووٹ ڈالنے کی اجازت دی۔
گزشتہ ایک ماہ کی صورت حال کے باعث دل میں شکوک و
شبہات تو تھے کہ کہیں اس بار بھی ۔۔۔ لیکن تازہ صورت حال نے دل کو کچھ حوصلہ بخشا جو
گنتی شروع ہونے سے لے کر ابتدائی نتائج موصول ہونے تک قائم رہی۔
پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ۔
پہلے ایک، پھر دوسری، اس کے بعد تیسری، چوتھی
اور پھر پانچویں جماعت نے ہنگامی پریس کانفرنس میں انتخابات کے نتائج پر سوالات اٹھانا
شروع کردیئے۔ تاہم اس وقت تک دو نجی ٹی وی چینلز کراچی میں عمران خان کی فتح کا اعلان
کرچکے تھے اور وقت تھا رات ساڑھے نو سے پونے دس کے درمیان کا، پھر تیزی سے موصول ہوتے
انتخابی نتائج کو بریک لگ گیا اور دن بھر کا تھکا ہارا میں بھی گھر لوٹ آیا۔
صبح تاخیر سے ہوئی۔ موبائل فون اٹھاتے ہی سوشل میڈیا
پر موصول ہونے والے نتائج نے حیران کیا مگر دل نے ہمت نہ ہاری اور منہ دھوتے ہی ٹی
وی کھول بیٹھا مگر اب کے نتائج نے سوشل میڈیا سے پیدا ہونے والی حیرانی کو پریشانی
میں بدل دیا۔ کیونکہ تھا جس کا انتظار ۔۔۔ یہ وہ صبح تو نہیں۔
جیسے تیسے چائے کا کپ ختم کیا اور بائیک پر سوار
ہوکر دفتر کی راہ لی مگر پریشانی کبھی اکیلی نہیں آتی، موٹر سائیکل پنکچر ہوگئی۔ موٹر
سائیکل جتنی فائدہ مند سواری ہے پنکچر ہونے کے بعد اس کے نقصانات وہ ہی جانتا ہے جس
نے موٹر سائیکل کبھی رکھی ہو۔
خیر بائیک گھسیٹ گھساٹ کر پنکچر کے ٹھیئے تک پہنچا
تو پتہ چلا کہ پنکچر ستر روپے کا ہوگیا ہے، ڈرتے ڈرتے نئی ٹیوب کی قیمت پوچھی اور دو
سو تیس روپے کا جواب موصول ہوتے ہیں پتا چل گیا کہ تبدیلی تو آگئی ہے، کیسے آئی ہے؟
سوچنا بے کار ہے کیونکہ بقول خواجہ آصف، کچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔ سب بھول جائیں گے، مگر پھر
بھی یہ کسک تو رہے گی کہ اگر الیکشن پر اکیس ارب نہ خرچ کیے جاتے تو شاید نہ پنکچر
ستر کا ہوتا اور نہ ٹیوب دو سو تیس کی ہوتی۔
اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment