کون بنے گا اپوزیشن لیڈر؟

کون بنے گا اپوزیشن لیڈر؟

تحریر: کاشف فاروقی

25 جولائی 2018 کو پاکستان میں آئندہ پانچ برس کیلئے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے انتخاب کیلئے ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ملک میں چھوٹی بڑی جماعتوں کی اکثریت قائد حزب اختلاف کے اہم عہدے کیلئے سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہے۔

ووٹرز کو اپنے حق میں قائل کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کے امیدوار ڈور ٹو ڈور جانے کے علاوہ پرانے اور نئے طریقوں کا استعمال کررہے ہیں، سوشل میڈیا پر بھی مخالفین کو قائد حزب اختلاف کا عہدہ حاصل کرنے سے روکنے کیلئے بھرپور صلاحیتوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔

انتخابات ہوں گے، نتائج کا اعلان ہوگا، پھر شروع ہوگا جوڑ توڑ کا ڈرامہ اور پھر کہیں جاکر دو تین جماعتیں مل کر قائد حزب اختلاف کا فیصلہ کر پائیں گی، لیکن فی الحال تو اپوزیشن لیڈر کیلئے شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان، بلاول بھٹو زردرای، سراج الحق سمیت کئی سیاستدان میدان میں ہیں۔  اور شہباز شریف پنجاب میں لیگی اکثریت تھوڑے بہت فرق سے برقرار رکھنے میں کامیاب رہے تو قوی امکان ہے کہ ملک میں قائد حزب اختلاف کی ہما ان کے ہی سر بیٹھے۔

قارئین پریشان نہ ہوں اس الیکشن کے نتیجے میں بھی آخرکار ایک شخص وزارت اعظمٰی کی کرسی پر براجمان ہوگا، لیکن وزیراعظم بننے والا کب تک عہدے پر رہے گا؟  اور ان کے نکالے جانے کی وجہ کیا ہوگی؟ اس کے بارے میں فی الوقت کچھ کہا نہیں جاسکتا؟ ہوسکتا ہے کہ حکومت کی گاڑی سیدھی چلاتے چلاتے کسی موٹر پر کوئی غلط یوں ٹرن رخصتی کا باعث بن جائے۔

مملکت خدادا میں وزیر اعظم عوام کا حقیقی نمائندہ ہوتا ہے۔ نہ عام آدمی کی کوئی حیثیت اور نہ ہی اس کے ووٹ سے منتخب ہونے والے وزیر اعظم کی، جب چاہا کسی نے دن دہاڑے بھرے مجمع میں گولی مارکر قتل کردیا، جب چاہا پھانسی چڑھادیا اور جب چاہا بغیر کرپشن کا الزام ثابت ہوئے برسوں کیلئے جیل میں ڈال دیا۔

ٹی وی والے اس کا بیان تک چلا نہیں سکتے۔  پیمرا فوراً حرکت میں آجاتا ہے۔ یہ پیمرا اس وقت حرکت میں نہیں آیا تھا جب سزائے موت کے منتظر دہشتگرد صولت مرزا نے پھانسی گھاٹ سے بیان دیا اور بلاتفریق سرکاری اور نجی ٹی وی نے اس بیان کو نشر کیا تھا۔


خیر بے وقعت عوام کے بے حیثیت نمائندے کی بات کرکے وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ اس کی بات کی جائے جو کہنے کو حزب اختلاف کا قائد ہوتا ہے لیکن رہتا حکومت میں ہے۔ سنا ہے جمہوریت میں حکومت سے زیادہ اپویشن کی اہمیت ہوتی ہے، عوام سے اپیل ہے کہ 25 جولائی کو گھروں سے نکلیں اور ووٹ دیں کیونکہ اب کے ووٹ سے بننے والا اپوزیشن لیڈر ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔



اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔ 

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.