سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے اور گولا گنڈا
تحریر: شارق جمال خان
ووٹ کاسٹ کرنے کے بعدمیرا گزر جناح اسپتال
کراچی کے قریب سے ہوا تو پیاس کی طلب ہوئی،نظر پڑی مختیار گولے گنڈے والا
ٹھیلے پر جہاں ملی نغمے بج رہے تھے۔ میں نے گولا بنانے کا کہا تو کرخت آواز
میں جواب دیا جی بناتا ہوں۔
مختیار نے اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے
برف کی مضبوط سلی پر درانتی ماری حسب ضرورت برف
کا ٹکڑا توڑا اور شکنجے میں کس دیا۔ اب مضبوط برف کاٹکڑا پھنسا ہواتھا۔
مختیار نے شکنجہ میں لگا پیڈل گھمایا مضبوط برف کا ٹکڑا بلیڈسے رگڑ کھاکر چورا
چورا ہوگیا۔ مختیار نے اس چورا ہوئی برف کو اپنی مٹھی سے یک جان کیا اور ایک گولے
کی شکل دےدی۔ برف کاٹکڑا اب ایک سفید گولے کی صورت میں مختیار کے ہاتھوں میں تھا
جس کی بناوٹ وہ انگلی سے گھماکر چیک کررہا تھا۔
میں بڑے انہماک سے مختیار کا کام دیکھ رہاتھا۔ مختیار نے سفید گولے کو رنگوں سے بھرنا شرو ع کیا۔ برقی قمقوں سے سجے ٹھیلے پر ملی نغمہ بج رہا تھا، وطن کی مٹی گواہ رہنا ۔مختیار نے سب سے پہلے سبز اور سرخ شربت کی بوتل نکالی اور گولے کے اوپری حصے کو رنگ دیا۔ اگلی تہہ صرف سبز رنگ اور اس کے بعد سیاہ کے ملتے جلتے مشروب کی بوتل سے شربت انڈیلا جسےسبز اور سرخ شربت کے ساتھ گولے پر سجا دیا۔
میں بڑے انہماک سے مختیار کا کام دیکھ رہاتھا۔ مختیار نے سفید گولے کو رنگوں سے بھرنا شرو ع کیا۔ برقی قمقوں سے سجے ٹھیلے پر ملی نغمہ بج رہا تھا، وطن کی مٹی گواہ رہنا ۔مختیار نے سب سے پہلے سبز اور سرخ شربت کی بوتل نکالی اور گولے کے اوپری حصے کو رنگ دیا۔ اگلی تہہ صرف سبز رنگ اور اس کے بعد سیاہ کے ملتے جلتے مشروب کی بوتل سے شربت انڈیلا جسےسبز اور سرخ شربت کے ساتھ گولے پر سجا دیا۔
نصف سے زائد گولا دیکھتے ہی دیکھتے رنگین ہوگیا۔
پھر ضرورت کے مطابق باقی رنگوں کے مشروب بھی گولے پر چھڑک دیئے۔ بالائی سطح
یعنی سبز اور سرخ رنگ پر ناریل اور کریم لگا کر بے ذائقہ برف کے ٹکرے
کو مزیدار ودلکش بنا کر میری جناب
بڑھاتے ہوئے بولا صاحب گولا تیار ہے۔
گولا
کھاتے ہوئے انگوٹھے پر نظر پڑی تو ووٹ کاسٹ کرنے کا نشان نظر آیا۔ میں
نےحساب لگایا بیس ارب روپے کی لاگت سے ہونے والے الیکشن میں لگ بھگ دس کروڑ ووٹرز
کے حساب سے میرے ووٹ کا تخمینہ بھی گولے گنڈے کی قیمت کے برابر یعنی دوسوروپے ہی
تھا۔ اب گولا کھانے میں اور بھی مزہ آرہاتھا۔
میں نے غور کیا اب کی بار مختیار نے گولے
کے رنگ کی ترتیب الٹی رکھی۔ میرا دھیان یک دم انتخابی نتائج کی طرف چلا گیا۔تحریک
انصاف تیئس سالہ سیاسی جدوجہد کے بعد ہر جگہ میدان مار رہی تھی۔ دوسرے نمبر پر سبز
جھنڈے والی ن لیگ اور تیسرے نمبر پر سبز، سرخ اور سیاہ جھنڈے والی
پیپلزپارٹی کے امیدوار کی فتح کی خبریں آرہی تھیں۔
میں نے گولے پر غور کیا تو مختیار نے کئی
روایتی رنگوں کے مشروب ڈالنے کے بجائے سادہ گولے کو چند ہی رنگوں سے سجادیا
تھا۔ عجلت میں بنایا گیا گولا تھا تو مزیدار لیکن جلد ہی اپنی شناخت کھوکر سادہ
ہورہاتھا۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں گر ہی نہ جائے اور اسی موقع پر مختیارکا بے اختیار
جملہ یاد آیا کہ صاحب جب تک ڈنڈا ہے گولا کہیں نہیں جائے گا۔
میں بے اختیار
مسکرایا اور سوچا کہ واقعی کسی نے سچ کہا ہے ڈنڈے سے دو ہی کام لئے جاتے ہیں قوم کو
سدھارا جاتا ہے یا ہانکا جاتا ہے۔ اب یہ فیصلہ سیاسی قیادت نے کرنا ہے، میرا
سفر مکمل ہوا گولا ختم ہوا زبان رنگی ہوئی تھی، اور ڈنڈی پھینکنے کیلئے جگہ
کی تلاش تھی۔
اس تحریر کے مصنف شارق جمال خان صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ مختلف نیوز چیلنز میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور اب بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ شارق جمال سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں
Post a Comment