دلہن مل گئی
تحریر: شاہد انجم
بادشاہ سلامت بیٹے کی شادی کے لیے بہت فکر مند تھے۔ گزشتہ کئی برس سے انہیں بہو تلاش کی تھی۔ اس سلسلے
میں دوستوں اور حلقہ احباب میں یہ پیغام پہنچا دیا کہ انہیں ایک فرمانبردار بہو کی
تلاش ہے جو شکل و صورت کی اچھی ہو گھر کو سنبھال سکے۔
بادشاہ کے اس پیغام
کے بعد سلطنت میں تلاش شروع کردی گئی اور ایک روز محل کے ایک دربان نے بادشاہ سلامت کو اطلاع دی کہ کچھ لوگوں کی سواری آئی ہے اور انکا کہنا ہے کہ بادشاہ سلامت کو بتا دیا
جائے کہ جو پیغام دیا تھا اسی سلسلے میں کچھ لوگ آن پہنچے ہیں اور ان کے ساتھ کچھ خوبصورت خواتین
بھی ہیں۔
بادشاہ سلامت نے
دربان سے کہا کہ شاہی مہمانوں کو بٹھایا جائے، ان کی خاطر تواضع کی جائے، میں ان سے
تھوڑی دیر میں آکر ملتا ہوں۔ اب بادشاہ نے شہزادے کو بلایا اور کہا کہ اب تم جوان ہو
چکے ہو، مجھے تمہاری فکر ہے کہ تمھارا گھر بھی بس جائے اور بادشاہت کے اصولوں کو بھی
سمجھ لو۔ بیٹے نے ابا کی بات کو مانتے ہوئے جواب دیا، ابا حضور جو آپ کی مرضی میں تیار
ہوکر آتا ہوں۔
دونوں باپ بیٹا اس کمرے میں پہنچے جہاں خواتین موجود تھیں۔ بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا تمام خواتین
سے باری باری بات چیت کی جا رہی تھی کہ پانچویں نمبر پر بیٹھی خاتون نے سر جھکا کر
ادب سے سلام کیا۔ بادشاہ سلامت نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اس نے سر کیا جھکایا مزا آ گیا۔ اس کے بعد دیگر خواتین کو کمرے سے باہر نکال دیا گیا اور اس سے سوال جواب کا سلسلہ
جاری رہا۔
میں تمہاری شادی
اپنے لاڈلے سے کرنا چاہتا ہوں لیکن اس کے لیے کچھ وقت درکار ہے، تمہیں ہماری سلطنت میں
رہ کر ہمارے رسم و رواج کو سیکھنا پڑے گا یہاں کا رہن سہن کیسا ہے، اسے اپنانا پڑے
گا، رقیب کی بری نظر سے تمہیں بچنا پڑے گا تاکہ شادی کے بعد تمہیں کوئی مشکل پیش نہ
آئے۔
بادشاہ
سلامت کی شرائط کے جواب میں لڑکی نے سرہلا کر تمام باتوں کا جواب ہاں میں دیا۔ بات پکی
ہوگئی چند روز کے بعد ہماری شاہی سواری تمہیں لینے آئے گی اور سب ٹھیک ہو جائے گا۔
بادشاہ کی اس کہانی
کو پڑھنے کے بعد ملک میں دوہزار اٹھارہ کے انتخابات کی
صورتحال میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگی جس میں الیکشن کمیشن اور دیگر نے بادشاہ سلامت
کی ایسی بہو کو پسند کیا جس نے سرخم ہوکر تمام
باتیں مان لیں تھیں۔
انتخابات کے نتائج
کا سلسلہ جب شروع ہوا تو اس کے چند گھنٹے بعد ہی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران
خان کو ملک کا وزیر اعظم بننے کی مبارک باد دی جانے لگی۔ پی ٹی آئی کے کارکن سڑکوں
پر آگئے اور مٹھائیاں تقسیم کرنے لگے۔ سڑکوں پر بھنگڑے ڈالے جارہے تھے شاید اس بادشاہ کی
طرح الیکشن کمیشن بھی اپنی بہو کو گھر لانے کا وقت طے کر چکا تھا۔
چند نتائج آنے کے
بعد ہی ملک کی دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابات کے نتائج پر تحفظات کا اظہار
شروع کر دیا گیا تھا مگر بہو کو پہلے سے ہی رقیب کی بری نظر سے بچنے کا سبق پڑھایا
جا چکا تھا اور بادشاہ سلامت بھی اس پر زیادہ توجہ نہیں دے رہا تھا جو کہ الیکشن کمیشن
کی ذمہ داری بنتی ہے۔
سیاسی جماعتوں کے
احتجاج کے بعد انتخابات کے نتائج کو مزید لیٹ کر دیا گیا جس سے پاکستانی قوم ذہنی کوفت
کا شکار رہی کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟ کیا اس طرح شفاف انتخابات ہوتے ہیں؟ اور الیکشن
کمیشن اگر صاف انتخابات کا دعوٰی کررہا ہے تو پھر کس چیز کی پردہ داری ہے؟
اس سے اندازہ یہ
ہوتا ہے کہ دال میں کہیں کالا تھا، کالا ہے اور کالا ہی رہے گا۔ لہذا الیکشن کمیشن نے
اگر ان سیاسی جماعتوں کی بات کو سنجیدگی سے نہ لیا تو شاید کچھ دن بعد ہی اس کے نتائج
اس قدر بھیانک نکلیں گے جس کا
انہیں اندازہ نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کو اس پر غور
کرنا چاہیے کیونکہ موجودہ الیکشن پر قوم کی خطیر رقم خرچ ہوئی ہے، متعدد جانوں کا
نقصان بھی ہوا ہے، اور ملک اس عمل کو دہرائے جانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment