کراچی کا ووٹر گیا کہاں؟
تحریر: شارق جمال خان
انتخابی عمل شفاف
تھا یا دھاندلی زدہ؟ ووٹر ناراض تھا یا خوفزدہ؟ سوجھ بوجھ رکھنے والوں کو سیاسی قیادت
پر یقین نہیں رہا یا پھر تیس سال بعد کراچی نے تاریخ دہرادی؟ دوہزار اٹھارہ کے انتخابات
میں ہوا کیا؟ پاکستان کے سب سے بڑے اور پڑھے لکھے شہر کا ووٹر گیا کہاں؟ انتخابی نتائج
کے بعد کئی سوالات ذہن میں الجھ کر رہ گئے تو میں نے حقائق کھوجنا شروع کئے۔
آج سے لگ بھگ تیس
برس پہلے اسی کی دہائی کا ذکر ہے جب کراچی
کے اردو بولنے والے لڑکوں کو کوئی سیاسی جماعت سنجیدگی سے نہیں لے رہی تھی۔ اسکول تو نہیں لیکن کالج، یونیورسٹی کی سطح
پر جب یہ لڑکے ناانصافی یا کسی زیادتی کے خلاف آواز اٹھاتے تو مناسب فورم پر پہنچنے
سے پہلے ہی یہ آواز شہر کے بڑھتے ہوئے بے ہنگم مسائل میں دب کر رہ جاتی۔ جب یہی لڑکے ایک
پلیٹ فارم پر جمع ہوئے تو پہلے ایک تنظیم اور
پھر سیاسی جماعت بناڈالی۔
اٹھاسی کے انتخابات
میں کراچی کی سب سے بڑی سیاسی قوت کے طور پر ابھرنے والی مہاجر قومی موومنٹ نے ایسی
دھاک بٹھائی کہ دیگر سیاسی جماعتوں کی واقعی چھٹی کرڈالی۔ تیس سال تک ایم کیوایم نے
ڈٹ کر شہر میں حکومت کی۔ دیکھنے والوں نے ایسا دور بھی دیکھا کہ ایم کیوایم نے قومی
اسمبلی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تو شہر میں ووٹ ہی نہ پڑا، اگلے دن صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں شرکت کا اعلان کیا تو پولنگ اسٹیشن
میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔
وقت کا پہیہ گھومتا
گیا۔ وہ طبقہ جسے کوئی خاطر میں نہ لاتا
تھا عملی سیاست میں اترا تو وفاق کے سیاسی منظرنامے میں ہمیشہ اہم رہا۔ ایم کیوایم
نے جب جب الیکشن میں حصہ لیا پہلےسے زیادہ ووٹ حاصل کئے لیکن پھروہی ہوا جو نظام قدرت ہے، ہر طلوع کو غروب ہے، ہر عروج کو زوال ہے۔
دو ہزار دو کے بعد
سے ایم کیوایم کی مقبولیت بتدریج کم ہونے لگی
تھی۔ دوہزار آٹھ کے الیکشن میں شہر کی سب سے
بڑی سیاسی جماعت دوہزار تیرہ کے انتخابات میں نہ صرف اپنی دو پکی نشستیں کھو بیٹھی
تھی بلکہ صوبائی سطح پر پچیس لاکھ سے زائد ووٹ لینے والی ایم کیوایم کو دوہزارتیرہ
میں ووٹ بینک میں بھی ساڑھے چار فیصد کمی کا جھٹکا سہنا پڑا تھا۔ ڈینٹ لگانے والی تھی
پاکستان تحریک انصاف۔
دو ہزار اٹھارہ کے
انتخابات میں شہر کا سیاسی منظر نامہ یکسر بدلا ہوا تھا۔ شہر کی سب سے بڑی سیاسی شناخت
رکھنے والی متحدہ قومی مومنٹ منشتر موومنٹ
بن چکی تھی۔ آنکھیں بند کرکے پتنگ پر بے دھڑک ٹھپہ لگانے والا ایم کیوایم کا ووٹر پریشان
تھا اور سوچ رہا تھا کہ کئی حصوں میں بٹی ایم کیوایم کا کون
سا دھڑا تن سے جڑا ہے۔ مچھلی پر مہر لگانی ہے یا پتنگ ہی اڑانی ہے؟ کچھ نے سیاسی گھونسلا بدلنے والوں کے حق میں ٹھپہ لگانا مناسب سمجھا تو کئی ووٹرمنحرف ہوکر بلے اور
کرین کے حق میں فیصلہ دے آئے لیکن کراچی میں ووٹرز کی بڑی تعداد انتخابات سے دور
رہی،کراچی کا ووٹر گیا کہاں؟
الیکشن کمیشن کے
جاری اعدادوشمار کے مطابق کراچی کی اکیس قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے رجسٹرڈ ووٹوں کی کل تعداد لگ بھگ
بیاسی لاکھ ہے۔ پچیس جولائی کو بیاسی لاکھ
میں سے قریباً اڑتالیس لاکھ ووٹرز گھروں سے نکلے ہی نہیں۔ صرف اکتیس
سے بتیس لاکھ ووٹرز نے انتخابات میں حصہ لیا۔ دوہزار تیرہ میں پچیس لاکھ سے زائد ووٹ
لینے والی ایم کیو ایم کو دوہزار اٹھارہ میں
بمشکل سوا چھ لاکھ ووٹ پڑا۔
سب سے بڑی سیاسی
جماعت کا چودہ لاکھ ووٹر کہاں گیا؟ ایک لاکھ اکسٹھ ہزار ووٹ تو مصطفی کمال کی ڈولفن
کو پڑا۔ ایک بڑا حصہ تحریک لبیک کے نام سے مذہبی جماعت بھی لے گئی لیکن سوال یہ اٹھتا
ہے کہ ایم کیوایم کا ووٹر کہاں گیا؟
کراچی میں ووٹنگ کا تینتیس فیصد حصہ لے کر تحریک انصاف شہر کی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آگئی۔
کراچی والوں نے صوبے کی بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کو اس کے آبائی گڑھ لیاری سے مسترد
کرتےہوئے اپنا بدلا ہوا مزاج دکھا دیا۔ ساتھ ہی عوامی نیشنل پارٹی کو بھی سرخ جھنڈی دکھا
دی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ چودہ لاکھ ووٹر زنے
انتخابی منظر سے غائب ہوکر سیاسی قیادت کے رویہ پر احتجاج نوٹ کرایا ہے یا کسی اور وجہ سے انتخابات میں حصہ نہیں لیا، سوچ
کر بتائیے گا، جواب کا منتظر رہوں گا۔
اس تحریر کے مصنف شارق جمال خان صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ مختلف نیوز چیلنز میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور اب بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ شارق جمال سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں
Post a Comment