میٹھا یا کھارا پانی
تحریر: شاہد انجم
ملک بھر میں پانی
کی کمی کو مخصوص علاقوں تک محدود کیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ ان تمام معاملات پر سنجیدگی سے سو چ رہا ہے۔ پاکستانی عوام یہ سن کر ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں کہ
شہر شہر، گاؤں گاؤں،بستی بستی اس بات کا شور ہے کہ آنے والے چندمہینے یا سالوں
میں ہماری دھرتی سے پانی ختم ہو جائے گا۔
کیا ہماری آنے
والی نسلیں مینہ برسنے کا انتظار کریں گی۔ کیا ہم ان کے لئے تکلیف کا سامان کر کے
جائیں۔ پریشان حال لوگ ہر گھر میں پانی کے حصول کیلئے مختلف طریقے اپنا رہے ہیں۔ لوگوں نے مین پائپ لائن سے اپنے گھروں تک نلکے لگوانا شروع کردیئے ہیں۔ البتہ یہ شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ زمین ایک، خطہ ایک، ملک ایک، شہر ایک، پانی
کی لائن ایک لیکن بعض کو میٹھا اور بعض کو کھارا پانی مل رہا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے
کہ مجموعی طور پر پانی کی ترسیل کا ایک ہی نظام بنایا جائے تاکہ تمام لوگوں کو
یکساں طور پر پانی میسر ہو مگر آئے روز شکایت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جانبداری کہ وجہ سے تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگ یہ سوچنے
پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اگر اس معاملے کا حل تلاش نہ کیا گیا تو آنے والا وقت انارکی کی جانب لے جائے گا ۔
پانی کا مسئلہ
بہت ہی گمبھیر ہے اور اس کو مد نظر رکھتے ہوئے
آج بہت لوگ اس موضوع پر بات کرتے نظر آتے
ہیں۔ اتنا ترجیحی مسئلہ اس وقت پس پشت چلا گیا جب لوگوں کا دھیان موجوہ حالات کی
جانب گیا۔ میرا اشارہ عام انتخابات کی طرف
ہے جس میں بظاہر پسند اور نا پسند کی بنیاد پر فیصلے کیے جا رہے ہیں۔
پسند ناپسند کی
سب سے بڑی مثال حنیف عباسی کا ایفی ڈرین کیس ہے۔ اس کیس کو اگر سنجیدگی سے پڑھا جائے تو حنیف عباسی کو جتنی بڑی سزا دی گئی وہ
بادی النظر میں اس کا سزاوار نہیں ہے۔ جو نظر آرہا ہے وہ یہ کہ فحش اور
مغلظات استعمال کرنے والے شیخ رشید کو الیکشن میں کامیاب کرانے کیلئے حنیف عباسی کو
عمر قید دی گئی ہے۔
یہ کوئی پہلا واقعہ
نہیں کی اس قسم کی سزا کسی امیدوار کو سنائی گئی ہو، اس سے قبل بھی کئی سیاسی
شخصیات ایسے فیصلوں کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔
پانی کی ترسیل
کی طرح یہ کھلا تضاد نہیں کہ بعض کو میٹھا اور بعض کو کھارا پانی سپلائی کیا جارہا
ہے۔ جیسا کہ اکھاڑے میں لاڈلے پہلوان کو جتوانے کے لئے مخالف پہلوانوں کے ہاتھ پیر
باندھ دیئے گئے ہوں تاکہ جب مقابلہ ہو تو رنگ میں کھڑا ریفری جیت کا فیصلہ لاڈلے
کے حق میں کردے۔
موجودہ حالات
میں عوام بھی پانی کے کھارا ور میٹھا ہونے کی طرح ذہنی اذیت کا شکار بنتے جارہے
ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کے بارے میں بہت سنجید گی سے سو چنا پڑے گا کیونکہ کے
اس کے متفقہ اور پائیدار حل میں ہی ملک اور ملک میں بسنے والے تمام افراد اور
طبقات کا فائدہ مضمر ہے۔
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment