فنڈ آبادی کے لحاظ سے، لاشیں رقبے کے لحاظ سے
تحریر: شاہد انجم
کامران بہت افسردہ
تھا اور اپنے قریبی دوستوں سے کہہ رہا تھا کہ یار ایسا لگتا ہے کہ میری طبعیت اب سنبھل
نہیں پا رہی۔
اس
کے دوست بھی اس کی سستی سے بہت پریشان تھے ۔ دل کی بات وہ کرنا نہیں چاہتا تھا یا اصلیت
بھی نہیں بتارہا تھا کہ شاید اسے بتا کر بھی
جواب آنے پر شرمندگی ہو۔
پھر بھی ایک شام
وہ اپنے ایک قریبی دوست جس سے وہ راز و نیاز کر لیتا تھا کہنے لگا یار میں اور آپ ایک
ہی طرح کے شہری ہیں، مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ آپ کے گاؤں کو دیکھتا ہوں تو وہاں بہت
خوشحالی ہے، بنیادی سہولیات بھی میسر ہیں لیکن
اس کے برعکس جب میں اپنی آبادی کو دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں تحفظات پیدا ہوتے ہیں۔
اگر اس پر بات کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ رقبہ تمہارے گاؤں کا زیادہ ہے اور آبادی کم ہے تو میں اس پر یہ سوچتا ہوں کہ نقصان
ہو تو وہ میرے حصے میں کیوں آتا ہے؟
مجھے یہ کہہ کر
ہمیشہ وہ سہولیات نہیں دی جاتیں جو میرے مقابل دوسروں کو دی جاتی ہیں۔ آنکھ سے ٹپکتا
ہوا آنسو گال پر رکا تو اسے اپنے دامن سے صاف کرتے ہوئے کامران نے کہا کیا یہ قانون
قدرت ہے یا سلطنت کا بنایا ہواقانون۔
کامران کی اس بات
کو سن کر مجھے حال ہی میں مستونگ میں ہوئی دہشت گردی یاد آگئی جس کا بغور جائزہ لیا
جائے تو نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ فنڈز آبادی کے لحاظ سے اور لاشیں رقبے کے لحاظ سے وصول ہو رہی ہیں ۔
مستونگ میں دہشت گردی کی واردارت سے پوری پاکستانی قوم سوگ میں مبتلا ہے۔سیاسی جماعتوں
کی طرف سے انتخابات کی سرگرمیاں معطل کرنے کے اعلانات کیے گئے۔ عسکری وسول، اعلیٰ قیادت
بھی دھماکے سے متاثرہ خاندانوں سے تعزیت کیلئے پہنچی مگر افسوس کیا ہم پہلے کچھ نہیں
کر سکتے تھے، جو آج ڈیڑھ سو خاندان اپنے پیاروں سے بچھڑے اور دو سو سے زائد خاندان کے پیارے ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
سانحہ سے قبل اگر ایک نظر دیکھا جائے تو وہ، جو دعوے کر رہے تھے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے، دہشت گرد بھاگ رہے ہیں، وہ
آج کہاں ہیں؟ کیا کوئی ان سے سوال کرنے والا ہے؟ کیا غمزدہ خاندانوں کے آنسو پوچھنے
والا کوئی ہے؟ کیا وہ آئندہ اس طرح کے سانحات نہ ہونے کی ضمانت دے سکتے ہیں؟
سانحہ مستونگ
کے بعد یہ اعلانات بھی کیے گئے کہ شہداء کے لواحقین میں کو پندرہ لاکھ امدادی رقم دی جائے گی اور زخمی ہونے والوں کو بھی امدادی چیک فراہم کیے جائیں گے۔ کیا
کوئی حکمرانوں سے سوال کرسکتا ہے کہ جو رقم
مرنے پر دی جارہی ہے اگر وہی رقم زندگی کی حفاظت پرخرچ ہوجاتی تاکہ علاقے میں بہتر
سیکیورٹی مہیا کی جا سکتی تو اس طرح کے
واقعات سے ممکنہ طور پر بچا جا سکتا تھا۔
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment