مہاجر، ٹھپہ کس پر لگائے گا؟
تحریر: شارق جمال خان
ایم کیو ایم کے دولخت ہونے کے لگ بھگ تئیس سال بعد ایم کیوایم کا ایک اور دھڑا سابق سٹی ناظم مصطفی کمال کی سربراہی میں سامنے آیا اور پھر سال ڈیڑھ سال میں ایم کیوایم دھڑا دھڑدھڑوں میں بٹ گئی اور متحدہ سے منتشرمومنٹ میں تبدیل ہوگئی۔
منزل کے بجائےرہنما کا نعرہ لگانے والے، قیادت کے مسئلے پر ایسے لڑے کے کراچی کی مضبوط ترین جماعت پی آئی
بی اور بہادرآباد کے لاحقوں سے جانی جانے لگی۔ ایم کیو ایم کی
ٹوٹ پھوٹ سےشہر میں پیدا ہونےوالا سیاسی خلا دیگر سیاسی جماعتوں کو سونے کی کان نظر آیا۔ معاشی حب میں حصول اقتدار کے کیلئے بیرونِ صوبےسے سیاسی جماعتوں نے کراچی کا رخ
کرلیا۔
پیپلزپارٹی اور
جماعت اسلامی تو کراچی کی سیاست میں پہلے سے ہی اِن ہیں، ساتھ ہی پہلی بار مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے بھرپور سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کراچی سے کیا۔ دوروزہ دورے میں شہباز شریف نے اننگز کا آغاز تو اچھا کیا لیکن پانی
سے پان اور کراچی سے کرانچی تک کے جملوں نے شہباز شریف کی مہاجر ووٹ حاصل کرنے کی ساری محنت کتھے چونے کے رنگ میں رنگ دی یا یوں کہا جائے کہ ساری محنت پان کی پیک میں بہہ گئی۔
تحریک انصاف، کراچی
کے سیاسی حصہ میں مہاجر ووٹ کی خواہشمند رہی ہے۔ سیاسی خلا پیدا ہونے کے بعد دوہزار
تیرہ کے مقابلے اس بار پی ٹی آئی نے انتخابی معرکے کے لئے بھرپور انداز میں کراچی سے
امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ ایم کیوایم کے تمام مضبوط حلقوں سے تحریک انصاف نے مقابلے میں
امیدوار اتار دیئے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے سعید
غنی متحدہ کے منتشر ہونے کے بعد مہاجر ووٹ کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور ضمنی انتخاب کا معرکہ مار کر عام انتخابات میں بھی کامیابی کا اشارہ دے دیا۔ دوسری
جانب پیپلزپارٹی کے سیاسی گڑھ لیاری سے پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری میدان میں اتر
گئے ہیں۔
آفاق احمد نے ایم
کیوایم حقیقی کے نام سے مہاجر ووٹ حاصل کرنا
چاہا تاہم تیئس سال بعد بھی آفاق احمد وہ مقام حاصل نہ کرسکے جس کیلئے انہوں نے ایم کیوایم سے بغاوت کی تھی۔ شہر کی موجودہ صورتحال
اور پی ایس پی کے لائحہ عمل کے بعد سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ ایم کیوایم حقیقی شہر
سے آٹے میں نمک کے برابر سیٹیں لینے میں شاید ہی کامیاب ہو۔
وہ کہتے ہیں نا اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں، اسی طرح
ایم کیوایم پاکستان کو سب سے بڑا ڈینٹ پاک سرزمین پارٹی سے لگنے کا خدشہ ہے۔
ایم کیوایم کے اکثر
سرکردہ رہنماؤں نے بانی کے بعد فاروق ستار اور فاروق ستار کے بعد خالد مقبول صدیقی
کا ہاتھ چھوڑکر مصطفی کمال کا دامن تھام لیا ہے۔ سابق سٹی ناظم کے کراچی میں ترقیاتی کام اب تک اہل کراچی کو یاد ہیں۔ راتو ں کوشہروں
کے دورے، طوفانی بارشوں میں شہریوں کے بیچوں بیچ پانی نکاسی کا کام اور ساتھ ہی سگنل
فری کوریڈورز، اگرچہ مصطفٰی کمال نے کام ایم
کیوایم کے پلیٹ فارم سے کیا تھا لیکن شہری، جماعت سے زیادہ مصطفٰی کمال کو یاد رکھے
ہوئے ہیں ۔
حالیہ دنوں میں فاروق ستار اور مصطفی کمال کے سیاسی رومانس سے امی سیاست تک کی کہانی کی کچھ قسطیں آنے کا بھی امکان ہے۔ امی سیاسی فارمولا ناکام ہوا تو پی ایس پی کراچی سے مہاجر ووٹ کی دوسری بڑی حقدار بن کر ابھر سکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ کہ مہاجر، ٹھپہ کس پر لگائے گا!
حالیہ دنوں میں فاروق ستار اور مصطفی کمال کے سیاسی رومانس سے امی سیاست تک کی کہانی کی کچھ قسطیں آنے کا بھی امکان ہے۔ امی سیاسی فارمولا ناکام ہوا تو پی ایس پی کراچی سے مہاجر ووٹ کی دوسری بڑی حقدار بن کر ابھر سکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ کہ مہاجر، ٹھپہ کس پر لگائے گا!
اس تحریر کے مصنف شارق جمال خان صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ مختلف نیوز چیلنز میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور اب بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ شارق جمال سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں
Post a Comment