انوکھا لاڈلا


Mushtaq Mahar, Karachi Police Chief

تحریر: شاہد انجم

درختوں کو کاٹنے  کا سلسلہ جاری تھا کیونکہ حکومتی احکامات انتہائی سخت تھے، اور کچھ عوامی دباؤ بھی تھا۔ صبح و شام تمام متعلقہ ادارے احکامات جاری کررہے تھے۔ 

جنگل کی کٹائی پر جو لوگ نظر رکھے ہوئے تھے وہ  نئے درختوں کو لگانے کے لیے بھی کوشاں تھے اور ساتھ ساتھ یہ بھی مشورہ دے رہے تھے کہ موجودہ موسمی حالات کا تقاضا ہے کہ درختوں کی چھاؤں دیرپا ہو تاکہ لوگ دھوپ سے بھی بچیں اور انہیں پرکشش ماحول بھی میسر آئے۔ 

البتہ درختوں کے کاٹے جانے کا سلسلہ کئی روز سے جاری تھا اور جنگل میں تقریبا نصف سے زیادہ درخت کٹ چکے تھے۔ ریاست میں بسنے والے چند شرفاء نے حکومت وقت اور اس کے نمائندوں کو ایک ایسی جگہ کی نشاندہی کی جہاں حکومتی مشنری جاتی تو تھی مگر اس درخت کو حیرت سے دیکھنے کے بعد واپس آ جاتی تھی، اس درخت کو کاٹنے کی کسی نے جرات نہیں کی۔

کیا اس درخت پر کوئی آسیب کے اثرات تھے یا پھر اس کے اپنے اثرات بہت گہرے تھے، کوئی بھی نہیں بتاتا تھا۔ بہرحال اس تحریری نشاندہی کے بعد حکومت کے کچھ نمائندوں نے اس جگہ کا دورہ کیا اور واپس آ کر زبانی رپورٹ دی جس میں انہوں نے بتایا کہ یہ بڑ کا درخت ہے جس کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اور اس کی شاخوں سے دودھ نما سفید رطوبت  نکلتی نظر آتی ہے۔  

حکومتی نمائندوں نے یہ بھی بتایا کہ اس درخت کو لوگ منت کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور کئی لوگ اس سے فیضیاب بھی ہوئے ہیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔  اس بڑ کے درخت کو اگر کاٹا یا ہٹایا گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہٹانے والا شخص کسی موضی بیماری میں مبتلا ہوجائے۔ علاقے کے لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ اس بغیر پھل کے درخت کو اب نہیں رہنا چاہیے کیونکہ اب یہ زمین کو سایہ میں لے کر زرخیر نہیں رہنے دے گا۔

یہ بات سن کر مجھے الیکشن کمیشن میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے دی جانے والی تحریری درخواست یاد آئی جس میں کراچی پولیس کے سربراہ مشتاق مہر کو ہٹائے جانے کی بات کی گئی ہے۔ تحریری درخواست میں یہ موقف اپنایا گیا ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

ملک کے دیگر  صوبوں میں اعلٰی افسران کی تقرریاں اور تبادلے کیے ہوئے کئی روز گزر گئے لیکن کراچی پولیس کے سربراہ کے پاس ایسی کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ اپنی سیٹ پر براجمان ہیں۔ کیا الیکشن کمیشن نے اس معاملے کو نظرانداز کردیا ہے یا پھر یہ انوکھا لاڈلا ٹھہرا ہے۔

اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر ویب سائٹ کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اورویب سائٹ کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔


کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.