ہارنے کے لئے اب میرے پاس کچھ نہیں

ہارنے کے لئے اب میرے پاس کچھ نہیں

تحریر: شاہد انجم

جگل کشور، اب تو میں صرف جیت سکتا ہوں۔ جو لڑائی  ہمارے درمیان ہوئی تھی وہ تاش کی گڈی سے  شروع ہو کر وہیں ختم ہوگئی۔  جیل جاتے ہوئے تم نے مجھے جو  تاش کی گڈی دی اس میں چاروں اکے نکالنا تم بھول گئے جو میں نے  بہت سنبھال کے رکھے تھے اور اب تم جو چال چلو جیسی بھی  چال چلو ،جیتوں گا تو  میں ہی کیونکہ جیت اسی کی ہوتی ہے جس کے پاس چاروں اکے ہوں۔

عدالت سے  نکلتے ہوئے جو حادثہ پیش آیا جس میں سوچی سمجھی سازش کے تحت میری بیوی  کو قتل کردیا گیا۔ میرے دوست کی بیٹی کو میرے حوالے اس وقت کیا گیا جب چال چلنے والوں نے میرے دوست کو قتل کر کے  الزام مجھ پر لگا دیا۔

جگل کشور  وہ وقت دور نہیں ہے جب میں سرخرو ہوں گا۔ جیل کی دیواریں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی۔ میں سزا بھگت کر واپس آرہا ہوں، میرا دامن صاف ہے اور اس کے بار ےمیں تم خود بھی جانتے ہو۔ عدالتوں میں پیش ہونے والے گواہوں نے بھی جانب داری کا مظاہرہ کیا لیکن سچ کیا ہے یہ بہت جلد پتہ چل جائے گا۔

یہ فلمی کہانی سن کر میرا سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب دھیان گیا۔ جب وہ بیٹی سے بات کررہے تھے تو بہت شاکی نظر آئے، وہ اپنی بیوی کو بستر مرگ پرچھوڑ کر اپنی بیٹی مریم نواز کا ہاتھ پکڑ کر کہہ رہے تھے کہ آؤ جیل چلیں۔

میاں صاحب کے حوصلے  میں بہت خود اعتمادی تھی اور انہیں یقین تھا کہ ہم سرخرو ہوں گے۔ لاہور ایئرپورٹ پر پہنچنے سے قبل کتنے مفروضے سننے کو ملے جن میں کہا جا رہا تھا۔  مگر ایسا نہ ہو سکا اور آخر کار عدالت کے احکامات کو مانتے ہوئے انہوں نے اپنی بیٹی سمیت گرفتاری پیش کردی۔

قانونی کے مطابق اگر دیکھا جائے تو کسی بھی مجرم کو سرکاری وقت ختم ہونے کے بعد جیل نہیں بھیجا جاسکتا  مگر میاں صاحب کو جیل بھیجا گیا اور اس سزا کو میاں نواز شریف کے مطابق انہوں نے ہنس کر قبول کیا۔

میاں نواز شریف جب ملک سے نیب کے زیر سماعت مقدمات کو چھوڑ کر بیرون ملک گئے اس وقت ان کی اہلیہ کلثوم نواز شدید علالت کے باعث لندن کے ہسپتال میں زیر علاج زندگی وموت کی جنگ لڑرہی تھیں۔ نواز شریف کے بیرون ملک جانے کے بعد کئی ایک ابہام نے جنم لیا اور سیاسی مخالفین نے ان کی ذات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ ملک سے بھاگ گئے ہیں اور اب کبھی بھی واپس نہیں آئیں گے۔

افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑ رہا کہ سیاسی مخالفین نے اخلاق کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اللہ معاف کرے کہ وہ اپنی اہلیہ کی میت کو ملک واپس لاکر انتخابی مہم کا حصہ بنا کر خود کو مظوم ثابت کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ پاکستانی قوم کی ہمدردیاں حاصل کرسکیں۔

البتہ بازی ایسی پلٹی کہ اس ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف نے خود پر ہونے والی تنقید کا جرات مندی سے مقابلہ کیا اور فیصلہ کرتے ہوئے اپنی اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر اور اپنی بیٹی کا ہاتھ تھام کر کہا کہ آؤ مریم جیل چلیں۔ بین الاقوامی میڈیا میں ان کے اس اقدام کو بہت زیادہ پذیرائی ملی۔ 

ان کے بعض قریبی رفقاء نے انہیں ملک نہ آنے کا مشورہ بھی دیا تھا جس پر میاں نواز شریف نے انہیں ہلکی سی مسکراہٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب میرے پاس ہارنے کو کچھ نہیں، یہ سیاسی جنگ مجھے ہی جیتنی ہے، میں جیل ہارنے کے لیے نہیں جارہا کیونکہ اسی عوام نے اپنے قیمتی ووٹ سے اس ملک کا تین بار وزیراعظم بنایا، ان کے دکھ درد اگر میں نہیں سمجھوں اور سنوں گا تو پھر کون سنے گا، جیل کی دیواریں میرا اور میرے کاررکنوں کا رشتہ کیسے ختم کرسکتی ہیں اور مجھ پر جو الزمات ہیں بہت جلد میں عدالتوں سے سرخرو ہوکر کارکنوں کے درمیان کھڑا ہوں گا۔



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.