سیاست - میراث یا مشن
تحریر: شارق جمال خان
ایک نواسہ نانا
کا منشور تھامے پاکستان بھر کے چکر لگارہاہے۔ تو دوسرا فرنگی قید سے رہائی پانے کے
بعد سرپرستوں سے ملنے کیلئے لاہور پہنچ گیا۔ جنید صفدر اگر چہ سیاسی بچہ نہیں لیکن
لاہور کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر شریف خاندان کی تیسری نسل کے استقبال کیلئے آئے لیگیوں
نے اشارہ دے دیا کہ وہ کسی صورت موروثی سیاست
سے باہر نہیں نکلیں گے۔
وہ لیگی قیادت اور
کارکن جو اپنے قائد میا ں نوازشریف اور مریم
نواز کیلئے مطلوبہ تعداد میں باہر نہ نکلے تھے، جنید صفدر کو لینے پہنچ گئے۔ جواں سال لیگی خون نے بھی استقبال کو خوب انجوائے
کیا اور بغیر کچھ بولے رائے ونڈ کی راہ لی۔
اب آیئے ایک اور
سیاسی گھرانےمیں آنکھ کھولنے والے نواسےکی طرف جنہوں نے سیاست میں زندہ رہنے کیلئے
اپنا نام بلاول زرداری سے بلاول بھٹو زرداری کرلیا۔ قیام پاکستان سے پہلے زرداری خاندان
انگریز راج میں سندھ کی سیاست میں سرگرم تھا۔ حاکم علی زرداری کے دادا سجاول زرداری
انگریز راج میں سرگرم سیاسی رہنما تھے۔
سیاسی سلسلہ آگے
بڑھا تو پوتے حاکم علی خان نے دادا کی سیاسی مشعل قیام پاکستان کے بعد سندھ میں تھامے
رکھی، جسے ان کے بیٹے آصف علی زرداری نے بھٹو خاندان سے منسلک ہوکر مزید روشن کردی۔
البتہ سجاول خان زرداری کے پڑپوتے نے سیاسی سمندر میں غوطہ لگانے کیلئے ددھیال کے بجائے
ننھیال کے نام کا سہارا لیا۔
موروثی سیاست کا
سلسلہ یہیں نہیں رکتا۔ گیلانی خاندان ہو یا
پگارا کی روحانی پیشوائیت۔ ترین خاندان ہو یا اچکزئی، وٹو خاندان کی نسلیں بھی سیاست
میں کود پڑیں ہیں تو سومرو خاندان اور شیرازی برادری نے بھی سیاست کو ہی خاندان کا
کل شیزارہ سمجھ لیا ہے۔
ملکی سیاست میں
کئی سیاستدانوں کی تیسری نسل سیاست میں ایسے اِن ہورہی ہے جیسے سیاست خاندانی پیشہ
ہو مشن نہیں۔ اگر ایک نسل بھی سیاست کو مشن سمجھ کر اپناتی تو ملک کی تقدیر بدل
چکی ہوتی۔
اس تحریر کے مصنف شارق جمال خان صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ مختلف نیوز چیلنز میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور اب بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ شارق جمال سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں
Post a Comment