وفادار سے بے وفائی
تحریر: شاہد انجم
ملک صاحب نے اپنی
ان گنت ایکڑ زمینوں پر مختلف اقسام کے جانور پال رکھے تھے۔ پرندوں
سے پیار اتنا زیادہ کہ ان کے لئے کافی کشادہ
پنجرے بنوائے تھے جن کی لمبائی اور چوڑائی خاصی تھی۔ جانور اور پرندے پالنے کے
باوجود ان کی محبت کی حد ختم نہیں ہورہی تھی کہ انہوں نے مچھلیوں کے تالاب بھی بنوا ڈالے جن میں انواع و اقسام کی مچھلیاں پال لیں۔
ملک صاحب کا حلقہ
احباب کافی وسیع تھا۔ ان کے قریبی دوست احباب اور رشتہ دار جب ان سے ملنے آتے تو وہ
انہیں ڈیرے پر لے جانے کے بعد اپنے منی زو کا دورہ کراتے۔ ملک صاحب
جانوروں کی خصوصیات گنواتے، ان کی تعریف کرتے نہیں تھکتے بلکہ وہ یہاں تک کہہ جاتے
کہ ان پر ہر آنے والی مصیبت کے درمیان ان کے جانور حائل ہوجاتے ہیں۔
رشتہ داروں اور مہمانوں کے پاس ملک صاحب کی باتوں پر حیران
ہونے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ ملک صاحب مہمانوں کے تاثرات بھانپتے ہوئے کہتے کہ
یہ جانور مجھے جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں اور اگر مجھے ان کی منہ مانگی قیمت بھی
کوئی دے تو میں انہیں فروخت نہ کروں۔ وہ
یہ بھی کہتے کہ میں اپنا یہ شوق اگلی نسلوں میں منتقل کررہا ہوں تاکہ میرے بعد
جانوروں سے محبت کا یہ سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے۔
ملک صاحب
جانوروں سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے دعویٰ کرتے کہ اگر آپ نے ان کے ساتھ میری محبت
کی گرمجوشی کا مشاہدہ کرنا ہے تو یاد رکھیں کہ میں تین ماہ تک اپنے فارم ہاؤس کے
تالاب میں مچھلی کا شکار نہیں کرتا کہ کہیں آبی حیات مجھ سے روٹھ نہ جائے۔
اس تمام قصے
میں ملک صاحب کی باتوں سے منافقت کی بو آتی ہے اور لگتا ہے کہ کچھ تو ایسا ہے جس کی
پردہ داری ہے۔ ملک صاحب کی ان شیخیوں کو سن کر مجھے حالیہ عام انتخابات میں پاک
سرزمین پارٹی کی بدترین شکست یاد آگئی۔
مصطفی کمال اپنی
سیاسی جماعت کے قیام سے لے کر انتخابات تک سیاسی حریفوں کو بار بار تنقید کا نشانہ
بنا رہے تھے اور بڑے بڑے دعوے کرتے تھے کہ عام انتخابات میں وہ بھاری مینڈیٹ لے کر
اپنے اوپر لگے الزامات کے دھبوں کو دھونے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
پی ایس پی کا
انتخابی نشان ڈولفن تھا جس کا نام آتے ہی وفاداری اور انسان دوستی کا تاثر پیدا
ہوتا ہے۔ البتہ مصطفی کمال شاید یہ بھول
گئے تھے کہ ان کا انتخابی نشان ڈولفن ہے اورمچھلی کا شکار مئی، جون، جولائی اور
اگست میں نہیں کیا جاتا۔ اور آپ نے اپنے
انتخابی نشان ڈولفن سے وفا نہیں کی اور جولائی میں اس کا شکار کرنے چلے۔ آپ کے اس
عمل سے آپ کی انسانوں کے ساتھ محبت کا بھی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔
شاید آپ اپنے
ماضی کو بھی بھول گئے جس کے بارے میں شہر قائد کے باسی بخوبی واقف ہیں اور وہ یہ بھی
جانتے ہیں کہ کبھی جن دوستوں کے ساتھ آپ ڈولفن کی طرح اپنی وفاداری دکھاتے تھے آج آپ ان کو کن الفاظ
سے پکارتے ہیں۔ عوام کو وہ وقت بھی یاد ہے جب ایک کھال کے پیچھے فریضہ قربانی کی نیت سے لائے گئے جانور کوماردیا جاتا تھا۔
انتخابی نتائج
سے لگتا ہے کہ آپ کی زبان سے نکلے الفاظ میں جو شائستگی ہوتی تھی، لوگ اسے بھول
نہیں پارہے۔ ڈولفن کے شکاریوں ایسا کیوں ہوا، اس بارے میں ذرا سوچئے!
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment