وہ تبدیلی جس کا وعدہ ہے ہم دیکھیں گے


وہ تبدیلی جس کا وعدہ ہے ہم دیکھیں گے

تحریر: کاشف فاروقی

ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی مون سون کا موسم ہے، سیاہ بادل تو چھاتے ہیں لیکن برسات نہیں ہوتی، واٹر بورڈ اور شہری انتظار میں ہیں کہ بادل برسیں تو حب ڈیم میں پانی سطح کچھ بلند ہو اور پانی سے محروم شہر کا بڑا حصہ جو ٹینکر مافیا کی زد میں ہے، سکون کے چند دن گزار سکے۔

تمام شہر کو پانی دینا واٹر بورڈ کے تو بس کی بات رہی نہیں ہے، دعوے بہت مگر ان دعووں کے برعکس ہم نے رمضان میں بھی واٹر بورڈ کے ہائیڈرنٹس پر لمبی قطاریں دیکھی ہیں۔  جب سے گرمی کی شدت کم ہوئی ہے پانی کی عدم فراہمی پر احتجاج کا سلسلہ تھم سا گیا ہے اور بجلی بھی زیادہ جاتی نہیں بلکہ آتی ہے۔

پانی، بجلی کے مسائل ہوں یا تباہ حال معیشت کا رونا، پورے ملک کا حال ایک سا ہی ہے۔ الیکشن کے دوران بہت شور تھا کہ قرضوں کا بوجھ لاد دیا گیا، معیشت تباہ کردی گئی، روپے کے مقابلے میں ڈالر آسمان کو چھوگیا ہے۔ الیکشن ہوگئے اور تبدیلی آگئی، میرا مطلب ہے نواز حکومت ماضی کا حصہ اور اس وقت ملک میں مون سون جیسی نگراں حکومت ہے اور تحریک انصاف کا حکومتی ہنی مون شروع ہوا ہی چاہتا ہے۔

ہنی مون کو یادگار بنانے کیلئے بہت سے لوگ بہت کام کررہے ہیں۔ ڈالر کی گراں فروشی میں ملوث لوگوں نے ماضی کی طرح اپنے کاروبار کو مزید چمکانے کیلئے "پلان بی" (ڈالرز کو مارکیٹ سے غائب کرکے مصنوعی قلت پیدا کی اور قدر بڑھائی پھر ڈالر مارکیٹ میں ڈال کر قدر گرائی اور اس دوران منافع دگنا تگنا کیا جارہا ہے)، یہ ڈرامہ بارہا ہوتا ہے، گندا ہے پر دھندا ہے۔

میڈیا میں بیٹھے بعض "مینیجرز" اس کو بھی عمران خان کی آنے والی حکومت کا مثبت اثر گردانتے نہیں تھک رہے، گویا بچہ پیدا ہوا نہیں اور جوتشی نے بتادیا کہ لڑکا ہوگا تو محافظ بنے گا اور لڑکی ہوئی تو خادم، اسٹاک ایکس چینج پر قابض بعض بڑے بروکرز بھی ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہیں، نوری اور ناری خالی خزانے کو بھرنے کیلئے اور آئی ایم ایف سے قرض نہ لینا پڑے اس کیلئے سعودی عرب سے امداد کا بندوبست کررہے ہیں، پرانے دوست چین سے نسبتاً آسان شرائط پر مزید قرض کی پیشکش ہے، پیٹرول کی قیمت میں کمی کا سہرا بھی خان صاحب کے سر لگانا ہے سو عوام کو جزوقتی ریلیف دینا مقصود ہے۔

تمام تر انتظامات کے باعث نئی حکومت کا ہنی مون پیریڈ تو بہت اچھا اور یادگار گزرنے کا قوی امکان ہے مگر گرمی کا موسم کون سا گیا وقت ہے جو پھر نہ آ سکے؟ اپریل شروع ہوتے ہی سورج آگ اگلے گا، بھاری بلوں کی ادائیگی کے باوجود بجلی گھنٹوں غائب ہوگی، پانی کی کمی ہوگی تو لوگ سڑکوں پر آئیں گے اور ٹائر بھی جلائیں گے۔

 آئندہ رمضان تک منافع خور اور ذخیرہ اندوز پھر چھریاں تیز کرچکے ہوں گے۔ اس وقت بھاری بھرکم جسسامت والے فواد چودھری کی باریک آواز مضبوط اپوزیشن کے شور میں دب جائے گی، خواجہ آصف پھر بولیں گے اور اعلٰی تعلیم یافتہ اسد عمر ہوں یا مشرف  دور میں ناکام نگراں وزیر شفقت محمود، بہت زیادہ کچھ نہیں کر پائیں گے۔

یہ صورت حال تو عمران خان کی حکومت ماضی کے حکمرانوں کی طرح جیسے تیسے جھیل ہی لے گی مگر اس کا کیا کریں گے جس پر سب فارغ ہوتے رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی کیسے بنائیں گے؟ اور کیسے چلائیں گے؟ دنیا سے تعلقات کیسے ہوں گے، امریکا بہادر کو کیسے رام کریں گے؟ پڑوسیوں سے حالات بہتر کرنا ہیں یا نہیں؟ نواز شریف کی طرح روز روز سرکار سے ملاقاتیں ہوں گی؟ مشورے لیں گے؟ اور اگر نہیں لیں گے تو تبدیلی کیسے آئے گی، وہ تبدیلی جس کا وعدہ ہے ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔



اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔ 


مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.