کراچی میں خواتین کے لیے روزمرہ سفر ایک زحمت
تحریر: فرحانہ نیازی
باجی آپ یہاں سے اٹھ کروہاں بیٹھ جائیں تاکہ پیچھے سے مرد آگے آکربیٹھ سکیں، باجی تھوڑی جگہ دے دیں تاکہ یہ بھائی بھی ادھرآجائے۔ ایسے مکالمے اکثر اوقات پبلک ٹرانسپورٹ میں سفرکرنے والوں کو سننے کو ملتے ہوں گے۔ کبھی اس بات پر بحث وتکرارہوتی ہے تو کبھی کوئی خاتون چپ چاپ کنڈیکٹرکی بات مان لیتی ہے۔
بات ہورہی ہے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی جہاں روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں طالبات، ورکنگ وومین تعلیم اور معاش سمیت مختلف کاموں کے لیے میلوں کا سفر کرتی ہیں ان میں سے زیادہ ترکے پاس ذاتی ٹرانسپورٹ کی سہولت موجود نہیں لہذا وہ پبلک ٹرانسپورٹ بالخصوص بس یا ویگن میں سفرکرتی ہیں کیوں کہ ہرروٹ پرکوئی نہ کوئی بس یا ویگن چلتی ہے اور کرایہ بھی مناسب ہوتا ہے۔
البتہ منزل تک پہنچنے کے لیے مسافربسوں میں خواتین کیلئے چند ہی سیٹیں مختص ہوتی ہیں۔ شہرمیں پبلک بسیں اورویگنوں میں خواتین کے لیے مختص کمپارٹمنٹ میں جگہ انتہائی ناکافی ہے اور اس ناکافی جگہ پربھی مردحضرات کا قبضہ ہوتا ہے۔ بیٹھنے کو جگہ نہ ملے توخواتین کی سیٹوں سے جُڑکرکھڑے ہوجاتے ہیں جس سے خواتین بے چینی محسوس کرتی ہیں اوراکثرمرد حضرات غیراخلاقی حرکات بھی کرجاتے ہیں۔
ہماری ٹریفک پولیس جو ہرچوک پرموجود توہوتی ہے لیکن اسے یہ سب نظرنہیں آتا نہ ہی اس سے متعلق کوئی سخت ہدایت ہے کہ خواتین کا کمپارٹمنٹ صرف خواتین کے لیے مختص کیا جائے۔ خواتین کے لیے ایک مرتبہ شہرمیں رکشہ سروس بھی شروع کی گئی تھی لیکن اس سے بھی خواتین کو خاطرخواہ فائدہ نہیں ہوا اوروہ کچھ عرصے بعد بند کردی گئی۔
کئی حکومتیں آئیں گئیں لیکن خواتین کے اس مسئلے کا حل کوئی نہیں نکال سکا۔ سندھ اسمبلی میں خواتین وزراءبھی ہم صنف کے اس دیرینہ مسئلے پرآواز اٹھانے سے گریزاں نظرآتی ہیں۔ ان کا کام محض سج دھج کراسمبلی میں جانے یا اپنی مخالف پارٹی پرتنقید یا نان ایشوز پر احتجاج کرنے تک ہی محدود ہوکررہ گیا ہے۔
دوسری جانب شہر میں کافی طویل عرصے سے ماس ٹرانزٹ منصوبہ زیر تعمیر ہے، جو سرجانی ٹاؤن سے شروع ہورہا ہے۔ شہرمیں جاری منصوبے کافی اہمیت کے حامل ہیں اوران سے عوام کی امیدیں وابستہ ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اورنج لائن منصوبے کے تحت جو بسیں چلائی جائیں گی ان میں خواتین کیلئے کتنی سیٹیں مختص ہوں گی اور ان منصوبوں سے کیا طالبات یا روزانہ سفرکرنے والی خواتین کو کوئی ریلیف مل سکے گا، یا پھر ان میں بھی خواتین کوتیسرے درجے کی حثیت دی جائے گی۔ یہ تو اورنج لائن کے آغاز پر ہی معلوم ہوسکے گا تب تک ہم صرف دعا ہی کرسکتے ہیں۔
آخرمیں یہ مشورہ بھی کہ ووٹ ضرور دیں، اور اپنا ووٹ سوچ سمجھ کراہل لوگوں کو دیں، اندھی تقلید یا کسی کے کہنے پرنہیں اور ایسے لوگوں کو منتخب کریں جو عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہوں۔
اس تحریر کی مصنفہ فرحانہ نیازی ابھرتی ہوئی صحافی ہیں۔ وہ ایک معروف نیوز چینل سے وابستہ رہی جبکہ انہیں ایک عالمی نشریاتی ادارے میں خدمات دینے کا تجربہ بھی ہے۔ آج کل وہ فری لانس صحافی ہیں۔ فرحانہ نیازی سے ٹوئیٹر پر رابطہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment