ساتھی گم ہو گیا!
کراچی کی انتخابی سیاست میں جہاں بہت کچھ نیا ہورہا ہے وہیں ایک روایتی چیز گم ہے بلکہ لا پتہ ہے۔ ایک ایسا جادو ایک ایسا اشارہ جو کراچی کے نوجوانوں کو خودبخود جھومنے پر مجبور کردیتا تھا، ہونٹ بے اختیار گنگنانے لگتے اور منچلوں کی اکثریت محو رقص ہوجاتی تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کراچی میں انتخابی سیاست زور پکڑتی جارہی ہے۔ شہر میں پارٹی پرچموں کی بہار ہے۔ چوک چوک پر تحریک انصاف کے کارکن انتخابی ماحول گرمائے ہوئے ہیں، گلی محلوں میں ایم کیوایم پاکستان سمیت پیپلزپارٹی اور اکا دکا محلوں میں ن لیگ کے انتخابی نغمے بھی گونج رہے ہیں۔ تحریک لبیک سمیت ایم ایم اے کے ترانے بھی کنٹینر نما ٹرکوں پر بجائےجارہے ہیں۔
پیپلزپارٹی کے جیالے جہاں اپنے روایتی نغمے جئے بھٹو پر جھوم رہے ہیں تو وہیں پی ٹی آئی والے تبدیلی آئے رے کے نغمے پر تھرک رہے ہیں۔ ایم کیوایم پاکستان کے کارکن بھی نئے ترانے بجارہے ہیں۔ پاک سرزمین کے نا م سے شہر کی نئی سیاسی شناخت بنانے والی پی ایس پی کی ٹیم کمال ہی کمال کےنغمے پر جشن منانے کی تیاری کررہی ہے۔
ایم ایم اے اپنی روایات کےمطابق میرا قرآن میرا منشور پر نوجوانوں کا لہو گرمارہی ہے۔ ایسے میں جماعت اسلامی والے بھی امریکا مخالف ترانے بجاکر ووٹرز کو رام کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
شہر میں سیاسی خلاء میں نئی حصہ دار بننے والی مسلم لیگ ن نے امن کے کریڈٹ کا سہرا لیتے ہوئے نعرہ متعارف کرادیا کہ کراچی کا سکون ہے اس کے پیچھے نون ہے۔ درجن بھر جماعتوں کے پارٹی نغموں جھنڈوں کارکنوں میں پھر بھی ایک چیز غائب ہے جو شاید اب ماضی کا قصہ بن گئی ہے۔
وہ کیا ہے جو اس سال عام انتخابات میں نہیں۔ جی وہ ہے متحدہ قومی موومنٹ کا نغمہ ساتھی۔ مظلوموں کا ساتھی۔۔۔ ایک ایسا نغمہ جو نہ صرف ایم کیوایم رہنماؤں اور کارکنوں کا لہوگرما دیتا بلکہ مخالف سیاسی جماعت کے کارکن بھی ایم کیوایم کا نغمہ سن کر خودبخود گنگنانا شروع کردیتے۔ ایم کیوایم کے مشہور گانے پر کارکنوں کا بے دھڑک رقص شہر کی انتخابی سرگرمیوں کے ساتھ رونق میں بھی اضافے کا سبب بنتا ۔ کہیں انتخابی دفاتر پر تو کہیں جلسے اور جلوسوں میں ایم کیوایم کا نغمہ گونجتا لیکن کہتے ہیں عروج کو زوال، ہر طلوع کو غروب ہے۔
وہ کیا ہے جو اس سال عام انتخابات میں نہیں۔ جی وہ ہے متحدہ قومی موومنٹ کا نغمہ ساتھی۔ مظلوموں کا ساتھی۔۔۔ ایک ایسا نغمہ جو نہ صرف ایم کیوایم رہنماؤں اور کارکنوں کا لہوگرما دیتا بلکہ مخالف سیاسی جماعت کے کارکن بھی ایم کیوایم کا نغمہ سن کر خودبخود گنگنانا شروع کردیتے۔ ایم کیوایم کے مشہور گانے پر کارکنوں کا بے دھڑک رقص شہر کی انتخابی سرگرمیوں کے ساتھ رونق میں بھی اضافے کا سبب بنتا ۔ کہیں انتخابی دفاتر پر تو کہیں جلسے اور جلوسوں میں ایم کیوایم کا نغمہ گونجتا لیکن کہتے ہیں عروج کو زوال، ہر طلوع کو غروب ہے۔
ایسا ہی کچھ ہوابانی ایم کیوایم الطاف حسین کے ساتھ۔ سنہ اٹھاسی سے کراچی کی انتخابی سیاست میں اِن ایم کیوایم جب جب الیکشن میں اتری کارکنوں نے ماحول گرمائے رکھا کبھی حق پرستی کا نعرہ بلندکیا تو کبھی حق کی کھلی کتاب کے نعرے لگائے لیکن اب عروس البلاد شہر کا سیاسی منظر نامہ یکسر بدلا ہوا ہے۔
انتخابی گہما گہمی میں ایم کیوایم قائد کی تصویر ہے نہ تذکرہ، نہ مشہور زمانہ پارٹی نغمہ۔ منزل کے بجائے قائد کا نعرہ لگانے والوں نے حق کی کھلی کتاب کا باب ہی بند کردیا اور خود ایک نئے مضمون کی صورت میں سیاسی لائبریری کے شیلف کا حصہ بننے کیلئے کوششوں میں مصروف ہیں۔
اس تحریر کے مصنف شارق جمال خان صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ مختلف نیوز چیلنز میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور اب بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ شارق جمال سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں
Post a Comment