تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے
تحریر: شارق جمال خان
ماربل چوک، اوپر لال ہری سفید رنگ کی پتنگ۔ چوک کے نیچے پارٹی نغموں پر کارکنوں کا والہانہ رقص۔ یہ مناظر ہیں کراچی کے اس علاقے کے جہاں پہلے کبھی متحدہ قومی موومنٹ کا طوطی بولا کرتا تھا۔
آج اسی پتنگ چوک کے نیچے مناظر وہی ہیں ماحول وہی ہے بس فرق ہے تو جماعت کا، آج پتنگ چوک بسیرا موڑ پر کارکن محو رقص ہیں، جھنڈے لہرارہے ہیں پارٹی کا جلسہ ہورہاہے لیکن جماعت ایم کیو ایم نہیں تحریک انصاف اور الطاف حسین (بانی ایم کیوایم ) کی جگہ پوسٹر ہیں عمران خان کے،تبدیلی آنہیں رہی تبدیلی آگئی ہے۔
کراچی میں انتخابی سرگرمیاں زور پکڑ گئیں، لیکن شہری مینڈیٹ رکھنےوالی متحدہ قومی موومنٹ کی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں، جن مقامات پر ایم کیوایم کے علاوہ کسی اور جماعت کے پوسٹر تک کا گمان نہیں کیاجاسکتا تھا آج وہاں تحریک انصاف کے الیکشن دفاتر کھل گئے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کا مضبوط مکا کھل کر پنجہ بنا تو اندرون شہر کے ساتھ بیرون شہر کی سیاسی جماعتیں انگلیاں مروڑنے کراچی کے سیاسی محاذ پر سرگرم ہوگئیں۔ گو کہ ایم کیوایم کے مکے سے کھلے پنجے میں طاقت کا منبع درمیانی انگلی (لندن والی) ہی تصور کی جارہی ہے لیکن بڑی انگلی کے دائیں بائیں ایم کیوایم بہادرآباد اور پی آئی بی دیگر سیاسی جماعتوں کو منظور نہیں۔
پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی تو پہلے ہی ایم کیوایم کے مکے کے خلاف سرگرم رہی ہیں لیکن کراچی میں بڑا سیاسی خلا پیدا ہونے کے بعد تحریک انصاف بڑی سیاسی حریف بن کر ابھری ہے۔ پی ٹی آئی نے نہ صرف کراچی کے ہر حلقے سے امیدوار الیکشن میں اتارے ہیں بلکہ ایسے علاقوں میں بھی انتخابی دفاتر کھول دیئے ہیں جہاں ماضی میں ایم کیوایم کو سیکیورٹی خدشات رہے ہیں۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان خود متحدہ سے منتشر ہوتی ایم کیوایم کے مکے سے پنجہ بنا ہاتھ موڑنے خود کراچی پہنچ گئے۔ دوہزار تیرہ کےعام انتخابات میں بھی تحریک انصا ف نے ایم کیوایم کو بڑا ڈینٹ لگاتے ہوئے اہم ترین حلقوں سے ہزاروں کی تعدادمیں ووٹ حاصل کر کے خطرے کی گھنٹی تو بجادی تھی، ساتھ ہی شہر سے قومی اسمبلی کے ساتھ صوبائی اسمبلی کی نشستیں نکالنے میں بھی کامیاب ہوگئی تھی۔ اس بار تحریک انصاف نے گھنٹی نہیں بلکہ پورا گھنٹہ بجا دیاہے۔
چھنگلی کی صورت میں آفاق احمد بھی ایم کیوایم کا ایک دھڑا لے کر شہر کی سیاست میں اِن ہیں لیکن حقیقی کی اہمیت حقیقت میں کسی بھی انتخابی اپ سیٹ کا حصہ نہیں بن سکی۔ البتہ دوہزار اٹھارہ کے انتخابی معرکے میں انگوٹھے کی مانند پاک سر زمین پارٹی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ماضی میں ایم کیوایم کے وفادار آج مصطفی اور قائم خانی سے کمال کی وفاداری نبھا رہے ہیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے پارٹی چھوڑ کر جانے والے ایم کیوایم رہنماؤں نے کمال کے ہاتھ مضبوط کردیئے۔ کئی ایم این اے اور ایم پی اے کارکنوں سمیت پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت اختیار کرگئے۔
ایم کیو ایم کی مکے سے کھلے پنجے تک کہانی میں انگوٹھے کی مانند پی ایس پی کی اہمیت شہری سیاست میں اس لئے بھی اہم ہے کہ انتخابی معاملات جتنے ہی جدید اور کمپیوٹرائزڈ کیوں نہ ہوجائیں، ووٹ کی شناخت سمیت دیگر اہم قانونی معاملات کیلئے انگوٹھے کی اہمیت تاحیات اہم ہی رہے گی، قطع نظر کہ انگوٹھا اپنی مرضی سے لگایا جارہاہے یا جبرا ً۔ انگوٹھا لگ گیا تو فیصلہ ہوگیا۔
اب تحریک انصاف کراچی میں ایم کیوایم کی انگلیوں کے ساتھ انگوٹھا مروڑنے کی بھی کوشش کرے گی یا تھمپس اپ کرتے ہوئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا سیاسی کھیل کھیلے گی، اس کا فیصلہ چند دنوں میں ہی ہونا ہے۔
اب تحریک انصاف کراچی میں ایم کیوایم کی انگلیوں کے ساتھ انگوٹھا مروڑنے کی بھی کوشش کرے گی یا تھمپس اپ کرتے ہوئے سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا سیاسی کھیل کھیلے گی، اس کا فیصلہ چند دنوں میں ہی ہونا ہے۔
اس تحریر کے مصنف شارق جمال خان صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ مختلف نیوز چیلنز میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور اب بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ شارق جمال سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں
Post a Comment