لائیو ٹاک شو میں مغلظات پر کیا صرف معذرت کافی ہے؟
جمعتہ المبارک کے روز صبح سویرے سے ہی شہر میں ایک اداسی کا عالم تھا ٹریفک بھی دیکھنے میں بہت کم تھا، تمام لوگ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے ایون فیلڈ فیصلے کا انتظار کر رہے تھے کہ کیا فیصلہ آئے گا۔ انتظار میں ٹی وی اسکرین پر نظر یں جمائے بیٹھے تھے ۔ قومی احتساب عدالت کی جانب سے بار بار فیصلے سنانے کی تاخیر کے اعلانات کیے جا رہے تھے جس کی وجہ سے لوگوں میں فیصلہ سننے کی بے چینی اور بڑھتی جا رہی تھی۔
ٹیلی ویژن اسکرین پر ملک کے نامور قانون دان، سیاست دان اور صحافی تجزیہ کار قانونی اور سیاسی تجزیے پیش کر رہے تھے، ہر ایک کی اپنی اپنی رائے تھی کچھ لوگ اس مقدمے میں ملوث ملزمان کو نشانہ بنا رہے تھے بلکہ بعض تو عدالتی فیصلے میں تاخیر ہونے پر بھی نکتہ چینی کر رہے تھے کہ اچانک وہ گھڑی آئی جس کا بیس کروڑ عوام کو شدت سے انتظار تھا۔
ٹیلی ویژن اسکرین پر بریکنگ نیوزکا ڈبہ گھوما کہ عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے ملزمان کی سزاؤں کا تعین کردیا جس کے بعد ایک نئی بحث کا آغاز ہوا ۔ملک کے سب سے بڑے ٹیلی ویژن کا دعویٰ کرنے والے نیوز چینل پر معروف صحافی تجزیہ کار موجود تھے اور س کیس کے فیصلے کے بعد اپنے اپنے تجزیے پیش کر رہے تھے۔
مجھے ان کی اس بحث اور تجزیے پر اس وقت شدید تکلیف ہوئی جب ایک ایسے چہرے کو جسے صحافتی حلقوں میں بہت کم دیکھا گیا ہے، ارشاد بھٹی مغلظات بک رہے تھے تو میں نے سوچا کہ کیا ہماری صحافت کا یہ معیار ہوچکا ہے۔ یہ کوئی پہلا مبینہ صحافی نہیں ہے، بلکہ اس طرح کے لوگوں سے صحافت کی گاڑی بھری پڑی ہے۔
اس سے زیادہ مجھے افسوس اس بات پر ہوا کہ جس ٹی وی چینل کی اسکرین پر بیٹھ کر یہ فحش زبان استعمال کی گئی اس کی انتظامیہ کو رتی بھر بھی شرم نہیں آئی اور نہ ہی ابھی تک پیمرا قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر پیمرا کی جانب سے کوئی قدم اٹھایا گیا ۔
پیمرا قوانین کے مطابق اگر پروگرام لائیو دیکھا جا رہا ہے تو اس میں ڈِلے (وقفہ )دیا جاتھا ہے تاکہ نازیبا الفاظ کو حذف کیا جا سکے اور اگر پروگرام کی ریکارڈنگ پہلے سے ہو چکی تھی تو اسے ایڈِٹ کیوں نہیں کیا گیا؟ ایسی زبان کے استعمال کے بعد اینکر کا اتنا کہہ دینا کافی نہیں ہوتا کہ ہم اس زبان کے استعمال پر معذرت چاہتے ہیں۔
ہر گھر میں ٹی وی دیکھا جاتا ہے جس میں ایک بڑی تعداد ہماری ماؤں بہنوں کی ہوتی ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ صرف دو لفظ بول کر اخلاقی طور پر معذرت کرلینا کافی ہے؟ پیمرا کو چاہیے اس پر فوری طور پر تمام ذمہ داروں اور ٹی وی چینل کی انتظامیہ کیخلاف مطلوبہ کارروائی کرے کیونکہ اس سے معاشرے میں منفی تاثر جاتا ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو کیا تعلیم دے رہے۔ اس معاملہ پر صحافتی تنظیموں کو بھی یکجا ہونا چاہیے اور اس طرح کی فحش زبان بولنے والوں اور دکھانے والوں کا محاسبہ کرنا چاہیے تاکہ اس بات کو ہر ممکن حد تک یقینی بنایا جا سکے کہ مستقبل میں یہ دوبارہ نہ ہو۔
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment