اڑنے والی تتلیاں چاہییں یا رینگنے والی؟
تحریر: عبید شاہ
ایک بچے کو تتلیاں
بہت پسند تھیں، وہ دن بھر رنگ برنگی تتلیوں کے پیچھے بھاگتا رہتا اور انہیں اپنی
مُٹھی میں قید کرنے کی کوشش کرتا۔ ایک
دن اس نے سوچا کیوں نہ ایک تتلی کو اپنا پالتو بنا لوں تاکہ وہ میرا کہا مانے، میرے
کہنے پر ہاتھوں میں آجائے، میرے کہنے پر اپنے رنگ برنگے پر پھڑ پھڑائے۔
یہ سوچ کر وہ تتلی
کا پیوپا (تتلی کے انڈے کا
وہ مرحلہ جس سے تتلی باہر آتی ہے) گھر لے آیا اور اس کا دھیان
رکھنے لگا اور انتظار بھی کہ اس کی پالتو تتلی کب باہر آئے۔ ایک دن اُسے اچانک پیوپا
میں حرکت محسوس ہوئی وہ خوشی اور تجسس کیساتھ پیوپا میں ہونے والی ہلچل دیکھنے لگا۔
پیوپا سے تتلی نے اپنا سر نکالا اور نکلنے کی جدوجہد شروع کردی کچھ دیر کی جدوجہد کے
بعد پیوپا میں ہونے والی ہلچل تھم گئی۔
بچہ سمجھا کے تتلی
تھک گئی ہے اب شاید وہ اس میں سے نکلنے کی ہمت نہیں جُٹا پارہی یہ سوچ کر اس نے پیوپا
کو تتلی کے لیئے ہموار کیا تاکہ تتلی اس میں سے نکل آئے۔ تتلی کا راستہ بنتے ہی وہ
آرام سے نکل آئی لیکن بچہ یہ دیکھ کر پریشان
ہو گیا کہ تتلی کا جسم پھولا ہوا تھا اور اس کے پر سُکڑے ہوئے تھے۔
بچے کو رب کی یہ
حکمت معلوم نہ تھی کہ پیوپا سے جدوجہد کر کے نکلنے والی تتلی جدجہد کے دوران اپنے جسم
سے رطوبت خارج کرتی ہے جو اس کے جسم کو ہلکا اور پروں کو بوجھ اُٹھانے کے قابل بناتی
ہے، یہ جدوجہد ہی اُسے خوبصورت رنگ برنگے پر دیتی ہے اور گلشن گلشن اُڑنے کے قابل بناتی
ہے۔ تتلی کو پالتو بنانے کی جلد بازی میں بچہ تتلی کو بنا جدوجہد کے پیوپا سے باہر
تو لے آیا لیکن تتلی کو پرواز دینا تو رب نے جدوجہد سے عبارت کر رکھا ہے، بچے کو تتلی
تو مل گئی لیکن زمین پر رینگنے والی۔
تتلی کی پیوپا سے
نکلنے کی جدوجہد اور بچے کی خواہش کو دیکھتا ہوں تو ملک خداد کی سیاسی جماعتیں آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہیں جن میں سے بعض کسی
نہ کسی کی عجلت کا ہی نتیجہ ہیں۔ محرومیوں کے پیوپا سے بنگال کی تتلی نکل کر اُڑ جانے
کے بعد دلفریب رنگوں والی تتلیوں کے لیئے نہ صرف
راستہ ہموار کرنا شروع کیا گیا بلکہ مرضی کی اڑان پر ان کے پر تک کُتر ڈالے گئے۔
بعض تتلیاں جدو جہد سے باہر بھی آئی لیکن اپنے رنگ برنگے
پروں کے گھمنڈ میں رہیں جس سے گلشن کو کچھ حاصل نہ ہوا۔ مہاجر بچے بھی اب بنا جدوجہد
کے پیوپا سے باہر نکلنے والی تتلیوں کے بجائے جدوجہد سے بھر پور اور خوبصورت پروں والی
تتلیوں کے پیچھے بھاگیں تو بہتر ہے کیونکہ جن تتلیوں سے وہ اُڑان کی توقع رکھ رہے ہیں
ان کا مقدر پی آئی بی، بہادرآباد اور پی
ای سی ایچ ایس میں رینگنا ہی ہے۔
نئے گلشن کا خواب
دکھانے والوں نے بھی الیکشن سائنس کے نام پر
جدوجہد کرنے والے پیوپا کو نظر انداز کر کے امپورٹٰڈپیوپا کی مدد لے لی ہے جو بنا راستہ
ہموار کیے اپنے خول سے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ نئے گلشن کا خواب سجانے والے بچوں کے
مقدر میں بھی رینگتی تتلیوں کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
سنا ہے لیاری کے بچے بھی اپنی پالتو تتلی سے بیزار ہوچکے
ہیں، نسل در نسل پیوپا کی رکھوالی اور
راستہ ہموار کرتے رہے جس کی وجہ سے ان میں سے نکلنے والی تتلیاں پروا ز ہی بھول گئی
ہیں۔ ان کے بھدے جسم اور کمزور پروں سے لیاری کے بچوں کو کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہےکہ دوہزار اٹھارہ میں گلستان میں رنگ برنگی تتلیاں اپنے رنگ
بکھیریں گی یا زمین پر رینگتی تتلیاں ہی مقدر ٹھہریں گی۔
اس تحریر کے مصنف عبید شاہ ایک نیوز چینل میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ نوجوان صحافی نے کم عرصے میں میدان صحافت میں منفرد مقام حاصل کیا ہے۔ ان سے فیس بک پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment