میں نے ووٹ کیوں نہیں دیا؟


تحریر: محمد اسداللہ خان

پاکستان میں ایک اور انتخابات کا شور تھا۔ کوئی تاریخی نتائج اور کوئی ملکی تقدیر بدلنے کی باتیں کررہا تھا۔ گویا  ایک ڈیڑھ ماہ سے ہنگامہ تھا۔ سب ایک دوسرے کو چور ڈاکو قرار دے رہے تھے۔ بڑی بڑی گاڑیوں میں عوام کے خوابوں کو روندنے والے جلسے جلوسوں میں  بڑے بڑے دعوے اور وعدے  کررہے تھے ۔

یہ سب تماشا ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا تھا۔  میں سوچ میں ڈوبا رہا۔ کبھی  وہ ٹھیک لگا کبھی یہ، چھوٹا چور کون سا بڑا کون سا؟ قاتل بڑا یا چور یا ڈاکو؟ فیصلہ نہ کرسکا۔

یہیں آپ کو بچپن کی ایک بات بتاتا چلتا ہوں کہ عام انتخابات والے دن فجر کی نماز کے بعد مولانا صاحب مخاطب ہوئےکہ بڑی برائی کے مقابلے  میں چھوٹی برائی کو وو ٹ دینا چاہیئے۔ یعنی اس وقت بےنظیر کے مقابلے میں نوازشریف ۔ میرا ووٹ تو نہیں تھا مگر میں سوچ میں پڑ گیا کہ برائی تو برائی ہوتی ہے پھر یہ چھوٹی  بڑی کیوں؟

بس یہی سب سوچتا رہا اور فیصلہ نہ کرسکا۔ اور انتخابات کا دن آگیا  ۔  تبدیلی آئے یا نہ آئے ایک تبدیلی ضرور آئے گی کہ یہ اسمبلی  صحیح معنوں میں اصطبل بنے گی، جہاں گھوڑے  بار بار بیچے اور خریدے جائیں گے کیونکہ کوئی پارٹی واضح برتری حاصل نہیں کرسکی ہے۔  اسمبلی میں بار بار بولیاں لگیں گی، کبھی ایک حکومت گرے  گی کبھی دوسری اور کوئی بعید نہیں  ہمارے ٹیکسوں پر  مہنگے ترین انتخابات  کے بعد جلد ایک اور انتخابات کرانا  پڑیں ۔

ملکی تقدیر بدلنے کی باتیں کرنے والے اپنی تقدیر پر روتے پیٹتے رہیں گے اور آئندہ آنے والی نسلوں کو اپنے  غلط فیصلوں کے بارے میں بتاتے رہیں گے ۔ مجھے میرے ایک بہت پیارے دوست نے کہا  آپ نے ووٹ نہیں دیا اب آپ  ملکی سیاست پر بات کرنے کا حق نہیں رکھتے ۔ میں نے کہا بھئی میں نے ظلم کے نظام سے نفرت کا اظہار کیا اور اس کا حق محفوظ رکھتا ہوں۔ 

انہوں نے کہا میں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تو میں نے کہا اللہ کرے  ہمارے  ملک کی سیاہ رات ختم  ہواور پانچ سال بعد  ایسا ہرگز نہ ہو کہ  پچیس جولائی کی دو پہر ووٹ دے کر آنے والے بابے کی طرح آ پ کو یہ نہ کہنا پڑے، چالیس سال سے ووٹ دے رہا ہوں مگر سب چور نکلے، ایک بھی فیصلہ ٹھیک نہ تھا۔

بہر حال  مجھے ایک شریف النفس   امیدوار نظر آیا  میں نے سوچا اس کو ووٹ دے دیتا  ہوں مگر کچھ سوچ  کر حتمی فیصلہ نہ کرسکا۔صبح سویرے والد صاحب نے کہا بیٹا کسی کو ووٹ نہیں دینا اور میرا  فیصلہ آسان ہوگیا۔

  قطاروں  میں کھڑے ہونے والوں کے مقدر میں ہی قطار ہے۔



اس تحریر کے مصنف محمد اسداللہ خان نے دوہزار ایک میں صحافت کے میدان میں قدم رکھا۔ کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے۔ اب بھی ایک نجی نشریاتی ادارے میں سینئر پروڈیوسر نیوز کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ عالمی، علاقائی اور ملکی حالات پر  کئی تجزیاتی رپورٹیں اور کالم اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔ ان سے رابطہ کرنے کے لئے ای میل کریں۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.