مدت پوری یا عدت
تحریر: شاہد انجم
گُلو بھائی ہر وقت
مسکراتے دکھائی دیتے تھے۔ کاروبار میں جو وقت بچتا دوستوں کے ساتھ گزارتے،
ہر ایک سے خوش ہو کر ملنا ان کی عادت میں شامل تھا اسی لیے لوگ انہیں ملنسار کہتے۔
اگر کسی کا کام ان کے ذمہ سونپ دیا جاتا تو وہ اسے فریضہ سمجھ کر کرتے شاید اس کی ایک
بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اپنے خاندان اور آباؤ اجداد سے کئی ہزار کلو میٹر دور رہتے
تھے۔
ایک روز گُلو بھائی
پریشان حال تھے اور ان کے کچھ قریبی دوستوں نے کہا کہ آج آپ کی مسکراہٹ اور آپ کے
لب و لہجے میں بہت تضاد پایا جا رہا ہے آپ کی آنکھیں آپ کی زبان کا ساتھ نہیں دے رہی
ہیں ایسا کیا گہرا صدمہ آپ کو لاحق ہے جس کا تذکرہ آپ ہم سے نہیں کرتے شاید ہم اس کا
کوئی حل نکال لیں۔
گُلو بھائی نے ایک
لمبی آہ بھری اور کہا کہ آپ نہیں جانتے میری ازدواجی زندگی جن لوگوں سے منسلک ہے وہ
اس سے قبل میرے لیے اجنبی تھے، ان کے رسم و رواج مجھ سے نہیں ملتے، ان کا رہن سہن ہم
سے الگ ہے پھر بھی میں پوری کوشش کر رہا ہوں کہ میری زندگی کا کچھ وقت اچھا گزر جائے۔
کبھی کبھار مجھے
یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے ہماری ازدواجی زندگی میں کچھ لوگ قیدو کا کردار ادا کر رہے
ہیں اور ہمیں ریلوے لائن کی اس پٹری کی طرح چلا رہے ہیں جو ساتھ ساتھ چل تو رہی ہے
لیکن مل نہیں پا رہی جبکہ میں چاہتا ہوں کہ ساحلوں کی ہوائیں میری لہروں کے ساتھ اٹھیں
اور واپس جائیں تا کہ وہ مجھے آنے والے طوفان کے بارے میں بتا سکیں۔
ازدواجی زندگی کے
ساتھ منسلک ہوئے مجھے زیادہ وقت نہیں گزرا میں ایک مدت پوری کرنا چاہتا ہوں مگر حالات
واقعات مجھے شاید عدت کے دن بھی نہ گزارنے دیں۔ میں جس خاندان میں پیدا ہوا وہاں جوانی
گزارتے ہی مجھے جدا ہونا پڑا تھا۔ اب میں چاہتا ہوں باقی وقت خوشی خوشی گزر
جائے اور میں سرخرو ہو سکوں۔
گلو بھائی کی یہ
کہانی سن کر مجھے صدمہ ہوا لیکن اس سے کہیں زیادہ مجھے یہ احساس ہو رہا تھا کہ یہ اسی
روایتی زندگی کی طرح ہے جو ہم کئی برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس کہانی کو جب میں نے پرکھا تو مجھے سندھ میں تعینات
پولیس کے سربراہ امجد سلیمی کی یاد آئی جن کی بطور آئی جی سندھ عام انتخابات سے قبل
الیکشن کمیشن کی اجازت سے تعیناتی کی گئی تھی ۔
امجد سلیمی اس وقت
بائیسں گریڈ میں ہیں اور ان کی مدت ملازمت ختم ہونے میں چند ماہ باقی ہیں۔ آئی جی سندھ
تعینات ہونے کے بعد انہوں نے بڑے بڑے دعوے کیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ سندھ پولیس
میں شعبہ تحقیقات کو مضبوط کریں گے، افسران و اہلکاروں کی ترقیاں جو کئی برسوں سے روکی
گئی تھیں فوری طور ہر اس کا نوٹی فکیشن جاری کریں گے، جرائم پر قابو پانے کے لیے فوری
قدم اٹھائیں گے۔
شاید وہ ابھی تک
ایسا کچھ بھی کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ تفتیش کے شعبے میں کوئی اہم پیش رفت ہوئی
نہ ہی کسی کی ترقی کا نوٹی فکیشن جاری ہوا اور نہ ہی جرائم میں کوئی خاطر خواہ کمی
واقع ہوئی۔
امجد سلیمی صاحب
کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ عام انتخابات کرانے کے لیے تعینات کیے گئے ہیں لیکن شاید
وہ یہ سب بھول گئے اور انہوں نے سندھ کی با اثر جماعتوں سے اپنی قربتیں بڑھانے کی
کوشش کی تاکہ ملازمت کے جو چند ماہ رہ گئے ہیں انہیں وہ سندھ میں ہی پورا کرلیں۔
شاید آئی جی
سندھ کو یہ معلوم نہیں کہ سندھ پولیس میں قیدو کا کردار ادا کرنے والے افسران آج بھی
اپنی سیٹوں پر براجمان ہیں اور وہ نئی حکومت کے آنے کے بعد ان کی مدت تو کیا شاید عدت
بھی پوری نہ کرنے دیں۔
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment