ایک زرداری، سب پہ بھاری

Former President of Pakistan and Co-Chairman PPP, Asif Ali Zardari - File Photo


تحریر: کاشف فاروقی

سابق وزیر اعظم نواز شریف اڈیالہ جیل میں بیٹی اور داماد سمیت قید کاٹ رہے ہیں اور سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال ٹالپور کے گرد ایف آئی منی لانڈرنگ کیس میں گھیرا تنگ کرتی جارہی ہے۔ زرداری صاحب اور فریال ٹالپور اسلام آباد ہائی کورٹ سے عبوری ضمانت پر ہیں لیکن ان کے عزیز دوست انور مجید اور ان کا بیٹا ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں، گویا تیاری مکمل ہے بس انتظار ہے صدارتی انتخاب کا۔

ایف آئی اے کے مطابق منی لانڈرنگ کیس دو ہزار پندرہ میں شروع ہوا تھا لیکن اس وقت اسے سردخانے کی نذر کردیا گیا یا شاید اسی وقت کیلئے بچا کے رکھا گیا۔  اسی کیس کا اثر تھا کہ پیپلز پارٹی نے اسپیکر کے انتخاب میں نواز لیگ سے خورشید شاہ کیلئے ووٹ تو لے لئے مگر شہباز شریف کو وزیر اعظم کیلئے ووٹ نہیں دیئے، نواز لیگ پارلیمان میں احتجاج کرتی رہی اور پیپلز پارٹی والے تماشا دیکھتے رہے۔

اب معاملہ ہے صدارتی انتخاب کا لہذا زرداری صاحب نے دیگر اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کے بغیر چودھری اعتزاز احسن کو صدارت کا امیدوار نامزد کردیا، یہ جواب ہے نواز شریف کی جانب سے میاں رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ کیلئے تجویز کرنے کا، میاں نواز شریف جانتے تھے کہ آصف زرداری ذاتی ناپسندیدگی اور مجبوریوں کے باعث رضا ربانی جیسے بااصول جیالے سیاستدان کو قبول نہیں کریں گے، بالکل اسی طرح آصف زرداری بھی جانتے ہیں کہ اعتزاز احسن نواز لیگ کو آخری امیدوار کے طور پر بھی قابل قبول نہیں ہوسکتے۔

یہ وہی اعتزاز احسن ہیں جو عدلیہ بحالی تحریک میں اس مقام پر لے گئے تھے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو مجبوراً معزول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کرنا پڑا۔ جنہوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو یوسف رضا گیلانی کی بطور وزیراعظم برطرفی سمیت کئی دکھ دیئے۔

مگر یہاں سوال اعتزاز احسن کو صدر بنانے کا نہیں بلکہ ڈیل کا ہے، آصف زرداری نے ملک میں طویل ترین جیل کاٹنے کا ریکارڈ بنا رکھا ہے مگر اب ان کی صحت مزید جیل کاٹنے کی اجازت نہیں دیتی لہذا انہیں تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی کو ہی صدر کا انتخاب جتانے میں اپنی بقاء دکھائی دے رہی ہے۔

مگر ان سب میں کہاں گئے پیپلز پارٹی کے وہ اصول پسند اور بلند سیاسی اقدار کے مالک رہنماء جو بھٹو اور بےنظیر کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں، اتنی بڑی جماعت میں کوئی نہیں جو آصف زرداری کوکہہ سکے کے بس کردو بس۔ کہیں تو منہ دکھانے کے قابل چھوڑ دو، الطاف حسین کے ساتھیوں کی طرح کب تک تمھارے غلط فیصلوں کو مانیں اور ان کا دفاع کرتے رہیں؟

صاف ستھرے امیج والے بلاول کو چیئرمین بنایا ہے تو اسے اپنے ماضی کا بوجھ اٹھانے اور جگاڑ کی سیاست کیلئے استعمال کرنے کی بجائے پیپلز پارٹی کی بہتری کیلئے کچھ کرلینے دو مگر ایسا کب ممکن ہے؟ بے نظیر نے بھٹو کے ساتھیوں کو فارغ کیا تو زرداری صاحب نے بے نظیر کے ساتھیوں کو۔ شاید زرداری صاحب نے اپنے ساتھیوں کا قد اسی لئے اتنا بلند ہونے ہی نہیں دیا کہ انہیں بلاول فارغ کرسکیں۔

صحیح کہتے ہیں۔۔۔ ایک زرداری۔۔۔۔ سب پہ بھاری



اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔  ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.