آؤ یار خون چوسیں
تحریر: شاہد انجم
بس اسٹاپ پر کڑی
دھوپ میں چہرے پر مایوسی، پھٹے کپڑے اور پرانی چپل پہنے ہوئے کمسن بچے کو کندھے سے
لگائے ہوئے شخص کو دیکھا کہ وہ کسی کا انتظار کر رہا ہے؟ بار بار دائیں بائیں گردن
گھما رہا تھا۔ ایسا لگا کہ کسی کی تلاش ہے۔ اس کی آنکھوں میں بہت سی حسرتیں تھیں
کہ اچانک بس کا ہارن بجا، بریک لگے تو وہ شخص بس میں سوار ہو گیا۔
میں نے وہاں جا
کر اس سے باتیں کرنے والے دوسرے اجنبی سے پوچھا کیا ماجرا ہے اس شخص کے بارے میں کوئی
معلومات حاصل ہوئیں تو بتادیں۔ اس شخص نے ایک آہ بھر ی اور پھر جواب دیا کہ تم کیا
کر لو گے، کڑی دھوپ میں بادل کہاں سے لاؤگے؟ موسلا دھاربارش میں آپ سائباں کہاں سے
دو گے؟ اور اگر ہمت ہے تو میرے ساتھ چلو میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ اس شخص کے ساتھ اور
کتنے لوگ مایوسی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
راستے میں اس شخص
نے سگریٹ سلگاتے ہوئے اپنا نام جاوید بتایا۔ کچھ وقت پیدل چلنے کے بعد وہ مجھے ایک
اسپتال میں لے گیا جس کی ایمرجنسی میں ہر رنگ، نسل، زبان سے بالاتر لوگ موجود تھے۔ ایمرجنسی کے اندر کا حال میں نے دیکھا تو ہر بستر پر دو سے تین بچے بلک رہے تھے۔ کسی
کو مصنوعی سانس دینے کے لیے نالی لگی ہوئی تھی اور کسی کو ماں اپنے کلیجے سے لگا کر
اسی لیے دودھ پلا رہی تھی کہ شاید اس کے مستقبل کی امید بندھی رہے۔
جاوید نے مجھے کہا
کہ آپ نے اس اسپتال کی صورتحال کو دیکھا ہے نہ وقت پر ڈاکٹر میسر ہے نہ ہی دوا۔ میں
نے اس کی بات سے اتفاق کر کے پھر اس شخص کے بارے میں معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ وہ
شخص یہاں سے تیس کلو میٹر دور ایک بستی میں رہتا ہے غریب گھرانے سے اس کا تعلق ہے اس
کے بیٹے کو مچھر نے کاٹا تھا۔ ساون بھادوں کا موسم ہے مچھروں کی بہتات ہے نہ تو مچھر
مارنے کا کوئی اسپرے ہوا ہے اور نہ ہی علاج معالجے کا کوئی بندوبست۔
اشرف جب اپنے کمسن
بچے کو لے کر اسپتال پہنچا تو قسمت نے اس سے ایسا منہ پھیرا کہ اس وقت کوئی ڈاکٹر بھی
ڈیوٹی پر موجود نہ تھا۔ بچے نے چند گھنٹے اپنے سانس پورے کیے اور وہ خالق حقیقی سے
جا ملا۔ موت کا ایک وقت مقرر ہے لیکن اس سے زیادہ مجھے افسوس اس وقت ہوا جب اشرف کے
پاس ٹیکسی یا ایمبولینس کے لیے پیسے نہیں تھے تو میں نے اس سے کہا کہ گھر کیسے جاؤگے؟
اس نے اپنے مایوس لہجے میں مجھے کہا کہ کسی کو کیا پتہ کہ وہ مر گیا ہے یا سو رہا ہے
چھوڑو یار اب تو وہ گھر پہنچنے والا ہوگا، تم اتنے افسردہ کس بات پر ہو؟
اشرف کی یہ بات
سننے کے بعد میں گھر چلا گیا۔ میری آنکھوں کے سامنے ٹیلیوژن کی اسکرین تھی جس پر ملک
میں عام انتخابات میں کامیاب اراکین حلف اٹھا رہے تھے کہ ہم اپنے ملک اور قوم کے لیے کام کریں گے اور مخلص رہیں گے۔
یہ دیکھ کر مجھے
خیال آیا کہ کیا ملک میں اس سے پہلے کبھی کسی نے حلف نہیں اٹھایا تھا؟ کیا کبھی کسی
نے مچھر مارنے کی ذمہ داری پوری کی؟ کیا ووٹر کو کبھی کسی نے مچھر دانی کی سہولت فراہم
کی؟ اور اگر کی ہوتی تو آج اشرف کا بیٹا کندھے پر نہیں پاؤں پر چل رہا ہوتا۔
ماضی میں اگر کسی
نے ایسا نہیں کیا تو آج عوام نے انہیں مسترد کیا لہذا قومی و صوبائی اسمبلیوں کے حلف
اٹھانے والوں کیا تم بھی ان کی طرح ہمارا خون چوسنے آرہے ہو اور اگر آپ بھی ایسا ہی
کرنے آ رہے ہو تو سمجھ لو کہ کل آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونے جا رہا ہے۔
اب بھی ساون بھادوں
کا موسم ہے، مچھروں کی بہتات ہے۔ ڈاکٹر اسپتالوں میں نہیں ہیں، ادویات کی آج بھی کمی
ہے، کیا تم اسے پورا کرو گے؟
تم نے حلف اٹھاتے ہوئے جن الفاظ کو دہرایا ہے ان کو یاد رکھنا،
ان کی حرمت کا خیال رکھنا اور ان پر عمل بھی کرنا ورنہ اسی بس اسٹاپ پر کوئی اور اشرف
اپنے بچے کو کاندھے سے لگائے کھڑا ہوگا اور اگر اس کی نظریں آنے والی بس کے بجائے آسمان
کی طرف اٹھ گئیں تو انجام سے آپ خوب واقف ہوں گے۔
ذرا سوچیئے کہ اب آپ کو بھی عوام کا خون چوسنا
ہے یا نیا، خوشحال پاکستان دینا ہے۔
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
Post a Comment