چینج سے تبدیلی تک

چینج سے تبدیلی تک


تبدیلی کی بات کانوں کو بہت بھلی لگتی ہے۔ یہ وہ بات ہے جو دو ہزار آٹھ میں امریکہ کا صدارتی انتخابات لڑنے والے بارک حسین اوباما نے انگریزی میں کہی اور الیکشن جیتا مگر آٹھ برس حکمران رہنے کے باوجود بھی وہ کچھ خاص چینج کر نہیں پائے۔ چینج کا نعرہ ترجمہ ہوکر پاکستان پہنچا تو تبدیلی کے متوالوں نے لگانا شروع کردیا۔

انتخابات میں جو کچھ ہوا وہ اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، ماضی کے انتخابات میں ہونے والے عمل کو دھاندلی کہیے یا انتظامی بے ضابطگی، ماضی میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام عائد کیا کرتیں تھیں لیکن اس بار الزام کسی اور پر لگا۔

پچیس جولائی کے الیکشن میں پولنگ تک تو سب کچھ مثالی رہا، ملک بھر میں کہیں سے بھی پولنگ اسٹیشن پر قبضہ یا ٹھپے لگائے جانے کی اطلاع تک موصول نہیں ہوئی۔ بطور صحافی اس کی تصدیق کی بھی کوشش کی جاسکتی ہے۔ گڑبڑ اس وقت شروع ہوئی جب رات نو بجے کے بعد پہلے میڈیا اور پھر پولنگ ایجنٹوں کو ووٹوں کی گنتی سے دور بلکہ باہر کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تو سیاسی جماعتوں نے اتنا شور مچایا کہ الیکشن کمیشن کی اپنی حیثیت متنازع بن گئی۔

ہر سیاسی جماعت الیکشن کمیشن سے استعفٰی مانگ رہی ہے اور الیکشن کمیشن کہیں دوبارہ گنتی اور کہیں حلقے کھولنے کی پیشکش کرکے عزت بچانے کی کوشش کررہا ہے۔

تحریک انصاف حکومت سازی کیلئے تن، من، دھن کا زور لگارہی ہے۔ عمران خان پہلے جذبات میں الزامات لگاتے چلے گئے مگر اب چور، ڈاکو، قاتل، دہشتگرد اور بھتہ خور قرار دیئے لوگوں سے ہاتھ ملانا پڑ رہا ہے۔ آزاد امیدوار بھی پورے ملک سے بنی گالہ پہنچتے ہیں اور گلے میں سبز اور سرخ مفلر ڈالے باہر نکلتے ہیں۔ گویا قبریں نئی ہیں مگر گور کن پرانے، سو تبدیلی آنہیں رہی، تبدیلی آگئی ہے۔

وزیراعظم بننے کی خواہش عمران خان کی ہے اور وہ انتخابات میں کامیابی پر خطاب کے بعد کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ وزارت اعظمٰی پر براجمان ہونے کی خواہش کو پروان چڑھانے والے جہانگیر ترین متحرک ہیں، گویا پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ؟

یہ وہی جہانگیر ترین ہیں جنہیں مخالفین عمران خان کی "اے ٹی ایم" کے نام سے پکارتے ہیں جو نواز شریف کی طرح سپریم کورٹ سے نااہل بھی قرار دیئے جاچکے ہیں۔ جہانگیرترین کو کچھ نہ ملنے کا بخوبی علم ہے  لیکن اس کے باوجود کیوں اور کس وجہ سے اتنی دوڑ دھوپ کررہے ہیں؟

انتخابات کے دن  گورکھ دھندے اور جہانگیر ترین کی پھرتیوں کو اگر ملا کر دیکھا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ تبدیلی کا نعرہ ہو یا نیا پاکستان اس کو پرانے طریقوں سے ہی بنانا بھی ہے اور چلانا بھی۔ لہذا میرا مشورہ تو یہی ہے کہ متنازع کامیابی کے ذریعے عمران خان کو کھینچ تان کر بمشکل حکومت بنانے کا موقع مل  ہی گیا ہے تو زیادہ تبدلیاں لانے کی بجائے اس غریب ملک کے لوگوں کی حالت زار کو بہتر کرنے کی کوشش کریں۔

قانون کے مطابق تو اب الیکشن پانچ برس بعد ہی ہوں گے مگر ان ہاوس تبدیلی کیلئے الیکشن کے تام جھام کی ضرورت نہیں ہوتی، اِن ہاؤس "تبدیلی" کا کھیل بھی شروع ہوسکتا ہے؟




اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔  ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔


مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.