جے اور ویرو کی دوستی

Prime Minister Imran Khan and Governor Sindh Imran Ismail

تحریر: شاہد انجم

سکے کے دونوں طرف ایک ہی نشان تھا اور جے ہمیشہ ویرو کو اس کا فائدہ دیتا رہا۔ ساتھ جینے مرنے کے وعدے سفر میں ایک ساتھ زندگی کی گاڑی چلتی رہی مگر ہمیشہ دونوں نے ایک دوسرے کو کبھی ایسے الفاظ میں نہیں پکارا جس سے کوئی دوسرا فائدہ اٹھا سکے۔

بحرحال گرمی سردی کا موسم ساتھ گزارا بھی اور انجوائے بھی کیا۔ بسنتی ہو یا دھنو ویرو کے حصے میں ہی آئی تھی۔ جے اپنی زندگی کے مختلف حصوں میں صرف حسرت بھری نگاہوں سے ہی دیکھ سکتا تھا شاید وہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا تھا یا کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔

کچھ معاملات ایسے بھی ہوتے ہیں جس میں قسمت کا لکھا بھی آڑے آ جاتا ہے اور چھوٹی سی ادا اگر پسند آ جائے تو انسان کو اس کے صبر کے پھل سے ایک نہ ایک روز قدرت نواز ہی دیتی ہے۔ ویرو کو جے کے بارے میں علم نہیں تھا کہ وہ اس سے اتنی محبت کرتا ہے اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب گبر کے ساتھیوں نے اس کو گھیرے میں لیا تو جے نے کہا ویرو تم یہاں سے نکل جاؤ میں ان کا مقابلہ کروں گا۔

قسمت کا کرنا ایسا ہوا کہ جب ویرو واپس آیا تو جے زندگی کی آخری سانسیں گن رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں وہ سکہ بھی موجود تھا جس پر دونوں طرف ایک ہی نشان تھا جسے دیکھ کر ویرو اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ یہ تم نے اچھا نہیں کیا۔ ساتھ جینے مرنے کے وعدے تھے آج تم مجھے اکیلا چھوڑ کر چلے گئے میں کیسے جی پاؤنگا حالانکہ خوبرو بسنتی اور ایک لمبی زندگی کا سفر اس کے سامنے تھا۔

یہ وہ فلمی کہانیاں ہیں جنہیں دیکھ کر ہم بہت افسوس کرتے ہیں بعض اوقات آنکھیں نم بھی ہو جاتی ہیں کہ دوست کو ایسے نہیں بچھڑنا چاہیے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ جس طرح سے برسوں قبل عمران اسماعیل اور عمران خان کی پہلی ملاقات ہوئی اور ایک گھنٹے کی اس ملاقات میں دونوں نے ایک دوسرے سے سچ بولنے اور مخلص رہنے کا وعدہ کیا سیاسی جنگ میں بہت نشیب و فراز بھی دیکھے مگر ملک کے وزیر اعظم عمران خان کو اس وقت بھی اس بات پر یقین تھا کہ حالات جیسے بھی ہوں میرا دوست عمران اسماعیل کبھی ساتھ نہیں چھوڑے گا۔

آخر کار پچیس جولائی کو ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو برتری حاصل ہوئی اور عمران خان ملک کے ستائیسویں وزیر اعظم بن گئے۔ حلف اٹھانے کی بعد عمران خان نے اپنے قریبی دوستوں پر جب نظریں ڈالیں تو اسے ایک مخلص دوست عمران اسماعیل کی شکل میں نظر آیا جسے صوبہ سندھ کی ایک اہم ذمہ داری کے لیے چن لیا گیا اور یہ اعلان کیا گیا کہ آئندہ سندھ کا گورنر عمران اسماعیل ہوگا۔

گورنر کی نامزدگی کے بعد سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کی طرف سے الزامات کی بوچھاڑ کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ عمران اسماعیل کے بارے میں یہ کہا جانے لگا کہ وہ کم تعلیم یافتہ ہیں لہذا انہیں گورنر کے عہدے پر تعینات نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔

البتہ ان کو کیا پتہ کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے اور اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے عمران خان اپنے فیصلے پر قائم رہے لیکن جو الزامات گورنر سندھ پر عائد کیے جارہے تھا کیا وہ ان کا سامنا کر پائیں گے یا نہیں؟ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ عمران اسماعیل اپنی تعلیم اور اپنے چھوٹے گھر کی وجہ سے شاید غریبوں کا ہمدرد بن جائے اور شاید اس کو یہ احساس رہے کہ ہمارے معاشرے میں جو غربت اور تعلیم کی کمی اور شعبہ صحت کی ناقص حالت ہے ہے انہیں وہ پورا کرنے کی کوشش کریں۔

دوسری طرف ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اب تک اس عہدے پر اونچے گھرانوں سے آنے والے افراد کا کیا کردار رہا ہے۔ کیا کبھی کسی نے ان سے پوچھا کہ تم قاتلوں کو کیوں چھڑاتے تھے؟ لینڈ مافیا کا ساتھ کیوں دیتے تھے؟ رسہ گیر کیوں پالتے تھے؟ سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث افراد کا صاحباں کیوں بنتے تھے؟ اور اگر نہیں  پوچھنا تو  پھر کچھ وقت انتظار کریں کہ شاید قسمت کی دیوی ہم پر مہربان ہو جائے  اور کراچی ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بن جائے۔



اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.