عمران خان، جہانگیر ترین کی دوستی عدالتی فیصلہ سے بالاتر؟
زندگی بھر دیارِ
غیر میں رہ کر محنت مزدوری کرتا رہا، اب دل نہیں لگتا تھا پردیس میں، بچے جوان ہو چکے
تھے، دل چاہتا تھا کہ اپنوں کی خدمت کروں، پرانے دوستوں سے ملوں اس لئے کہ خونی رشتوں
کے ساتھ ساتھ پردیس میں لنگوٹیے بہت یاد آتے ہیں۔
یہ باتیں حاجی صاحب
رات کو کھانے کے بعد اپنے چند دوستوں سے کر رہے تھے۔ بات چیت کے دوران حاجی صاحب بار
بار لمبی آہ بھرتے اور اپنے ایک بہت ہی قریبی دوست کا ذکر کرتے ہوئے پوچھتے کہ وہ آج
کل کہاں ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس سے ملوں اور اس سے راز و نیاز کروں۔
اگلے روز حاجی صاحب ناشتے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ دروازے
پر دستک ہوئی اور آواز آئی کہ حاجی صاحب گھر پر ہیں جس پرحاجی صاحب دروازے کی طرف گئے۔
دروازہ کھولا تو سامنے ان کا دوست جسے وہ بچپن میں جگو کہتے تھے کھڑا تھا۔ کئی برسوں
کے بعد ملاقات انتہائی گرم جوشی سے کافی دیر ہوتی رہی جس کے بعد دونوں دوستوں میں یہ
طے پایا کہ آج کے بعد ہم دونوں ساتھ رہیں گے وقت کیسا بھی ہو اس کا سامنا کریں گے۔
حاجی صاحب کو یہ
معلوم ہو چکا تھا کہ جگو ایک بہت بڑا کاروباری آدمی بن چکا ہے۔ وہ ہر صبح حاجی صاحب
کو اپنی لگژری گاڑی میں لیتا، دن بھر مصروفیات کے بعد شام کو حاجی صاحب کو گھر چھوڑدیتا۔
یہ سلسلہ کافی عرصہ چلتا رہا۔
ایک روز جگو، حاجی
صاحب کو لینے نہیں پہنچا تو حاجی صاحب کو تشویش ہوئی اور انہوں نے دیگر دوستوں سے معلومات
حاصل کیں تو پتہ چلا کہ ان کا دوست جو آج ایک بہت بڑا تاجر بنا بیٹھا ہے اس میں زیادہ
تر مال فراڈ اور بددیانتی سے کمایا گیا ہے۔
یہ بات پھیلی
تو پنجایت بیٹھی جس نے معلومات لینے کے بعد اس کی مزید تحقیقات کی۔ پنچایت نے بعد
میں فیصلہ سناتے ہوئے اسے جھوٹا قرار دے دیاحکم دیا کہ اب کوئی اس سے کسی قسم کا لین
دین نہیں کرے گا۔ ان تمام معلومات اور پنچایت کا فیصلہ آنے باوجود حاجی صاحب جگو سے ہمہ وقت رابطے میں رہے۔
حاجی صاحب اپنے
دیگر دوستوں سے کہتے مانا کہ جگو کو پنچائیت نے بد دیانت یا بدکردار ہونے کی سند جاری
کی ہے مگر میں اس کو آج بھی ان تمام حالات کے باوجود نہیں چھوڑ سکتا۔
حاجی صاحب اور
جگو کی دوستی کی کہانی کچھ ایسی ہی لگتی ہے جیسی عمران خان اور جہانگیر ترین کی
دوستی ہے۔ ملک میں حالیہ انتخابات میں سب سے بڑی جماعت تحریک انصاف کے چئیرمین عمران
خان چند روز میں ملک کے انیسویں وزیر اعظم کا حلف اٹھانے جارہے ہیں جن کا دعویٰ تھا
اور آج بھی ہے کہ وہ کسی بھی کرپٹ، بددیانت اور جھوٹے کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے
تاہم کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دیں گے۔
عمران خان کہتے
تھے کہ لوٹ مار کرنے والوں کو چوراہوں پر لٹکا دیں گے مگر افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ
رہا ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدالت نے جسے صادق اور امین نہ ہونے پر تاحیات نااہل ہونے کا
فیصلہ سنایا وہی جہانگیر ترین آج عمران خان کے سر وزارت عظمیٰ کا سہرا سجانے کے لئے
پھول اور تارے اکھٹے کرتا پھر رہا ہے۔ اپنے دوست کے حلف اٹھانے کے وقت پہنی جانیوالی
شیروانی کے بٹن ٹانک رہا ہے۔
عمران خان نے ایسا کون سا چشمہ پہن رکھا ہے کہ انہیں یہ سب دکھائی نہیں دے رہا۔ اب عمران خان کے نعرے تبدیلی آ نہیں رہی، آگئی ہے، سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے وقت میں عین ممکن ہے کہ سرکاری محکموں کے کئی چپڑاسی، کلرک، پٹواری، پولیس کے نچلے گریڈ کے اہلکار چند روپے رشوت کےالزام میں گرفتار بھی ہوں اور ملازمتوں سے فارغ بھی تاکہ ملک کے معصوم عوام کو اس بار تبدیلی کے نعرے کے ذریعے پھر بےوقوف بنایا سکے۔
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
عمران خان نے ایسا کون سا چشمہ پہن رکھا ہے کہ انہیں یہ سب دکھائی نہیں دے رہا۔ اب عمران خان کے نعرے تبدیلی آ نہیں رہی، آگئی ہے، سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے وقت میں عین ممکن ہے کہ سرکاری محکموں کے کئی چپڑاسی، کلرک، پٹواری، پولیس کے نچلے گریڈ کے اہلکار چند روپے رشوت کےالزام میں گرفتار بھی ہوں اور ملازمتوں سے فارغ بھی تاکہ ملک کے معصوم عوام کو اس بار تبدیلی کے نعرے کے ذریعے پھر بےوقوف بنایا سکے۔
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
I LIKE
جواب دیںحذف کریں