نا اہل ' ترین'، اہل ترین نکلا
تحریر: شارق جمال خان
پچھلے دنوں بالی
ووڈ فلم رئیس کا مشہور ڈائیلاگ سماعت سے ٹکرایا،
"امی
جان کہتی تھیں کوئی دھندہ چھوٹا نہیں ہوتا اور دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں ہوتا"۔
میں ٹی وی چینل
سوئچ کرتے ہوئے نیوز سننے لگا۔ خبر آئی جہانگیر ترین نے مزید پانچ ارکان کو تحریک انصاف
کا حصہ بنادیا تو یکایک شاہ رخ خان کا ڈائیلاگ پیروڈی کی صور ت میں ذہن میں کچھ اس
طرح سے کودا، 'امو کہتا ہے کوئی امیدوار چھوٹا
نہیں ہوتا اور آزاد سے بڑا کوئی امیدوار نہیں ہوتا؛۔
پاکستان تحریک انصاف
کے سینئر رہنماء جہانگیر ترین عوامی عہدے کیلئے
تو عدلیہ کی جانب سے اہل نہیں رہے لیکن نااہلی کے بعد جہانگیر ترین خان اپنی پارٹی
کیلئے اہل ترین رہنماء بن کر سامنے آئے۔
عام انتخابات کے
نتائج آنا شروع ہوئے تو تحریک انصاف قومی سطح پر سب سے زیادہ مینڈیٹ لینے والی جماعت
بن کر ابھری لیکن عددی اکثریت اتنی نہیں تھی کہ عمران خان تنہا اقتدار پر براجمان
ہوجاتے۔ اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کی طرح
تحریک انصاف نے بھی سیاسی جماعتوں کے ساتھ آزاد امیدواروں کو اپنے کیمپ میں لانے کیلئے
کوششیں شروع کردیں۔
قائد کی خوشی کے ساتھ ماتھے پر پڑی نمبر گیم کی شکنیں سپریم کورٹ
کی جانب سے نااہل قراردیئے گئے جہانگیر ترین نے پڑھ لیں اور پریشانی کا حل مہم
" آزاد امیدوار" کی صورت میں ڈھونڈ نکالا۔
انتخابات کے دوروز
بعد جہانگیر ترین بنی گالہ میں کچھ وقت گزارتے
اور پھر حلقہ حلقہ آزاد امیدواروں سے رابطہ کرتے۔ کپتان کا پلان اور تحریک ا نصاف کا
منشور سامنے رکھ کر آزاد امیدوار کو پی ٹی آئی کے ڈریسنگ روم میں شمولیت کی دعوت دیتے۔
نہ جانے جہانگیر ترین کی شخصیت
اور زبان میں ایسی کیا کشش دکھائی دیتی کہ آزاد امیدوار خود کو پی ٹی آئی کے
پنجرے میں قید کروانے پر راضی ہوجاتا ۔ جہانگیر ترین آزاد امیدوار کو راضی کرتے اور لے کر بنی گالہ پہنچ جاتے۔
آخری خبریں آنے تک
مظفر گڑھ سے شبیر علی قریشی اور گھوٹکی سے سابق وزیراعلیٰ سندھ علی محمد مہر سمیت پنجاب
اسمبلی کی نشست دوسوبیاسی سے کامیاب آزاد امیدوار طاہر رندھاوا نے بھی عمران خان کی
حمایت کا اعلان کردیا تھا۔
جہانگیر ترین نے
صرف آزاد امیدواروں تک اپنی جدوجہد جاری نہیں رکھی بلکہ سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے کوششیں کرتے رہے۔ اطلاعات کے مطابق
امیدوار اکھٹا کرو کی مہم میں جہانگیر ترین اول ترین نمبرز کے ساتھ تحریک انصاف کے اہل ترین لوگوں کی صف میں شامل ہیں۔
جہانگیر ترین کا
کہنا ہے کہ وہ بناء کسی لالچ اور عہدے کی خواہش کے صرف اور صرف پارٹی کی مضبوطی اور
بہتری کیلئے کام کررہے ہیں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت ہو
اور نئی ٹیم کا کپتان عمران خان ہو۔
جہانگیر ترین کی
کوششوں کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ شاید اب بنی گالہ کے درو دیوار سے بھی یہ صدا گونجنے
لگے کہ شیروانی پہلی شادی کی ہو یا تیسری شادی کی، عام نہیں ہوتی جبکہ وزیراعظم کی
شیروانی پہنوانے والے سے زیادہ کوئی شخصیت
خاص نہیں ہوتی۔
اس تحریر کے مصنف شارق جمال خان صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ مختلف نیوز چیلنز میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور اب بھی ایک نیوز چینل سے وابستہ ہیں۔ شارق جمال سے ٹوئیٹر پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں
Post a Comment