جلی ہوئی کھیر

Jali hui kheer - Imran Khan chairs meeting at Bani Gala, Islamabad


دنیا میں مختصر ترین سفر ذائقہ کا ہے، جو نوالے کو زبان سے رکھنے پر شروع ہوتا ہے اور حلق سے اترنے پر تمام ہوجاتا ہے، اسی لئے کھانا پکانے کو انتہائی مشکل کام تصور کیا جاتا ہے، ذرا نمک مرچ کم ہوا تو نوالہ حلق سے اترنا مشکل اور کہیں زیادہ ہوگیا تو بھی کھانے والے کا برا حال اور پکانے والی کی ساری محنت غارت۔

 گھر میں تو کھانا محدود مقدار میں پکتا ہے مگر دعوت کیلئے کھانا پکانے والے کی مہارت کا پتہ چلتا ہے، لہذا تیز مصالحوں کے اثر کو زائل کرنے کیلئے میٹھا متعارف کروایا گیا۔ اب تو دعوت میں کئی اقسام کا میٹھا دستیاب ہوتا ہے مگر جو بات روایتی میٹھے پکوان کی ہے وہ آج کل کے ٹرائفل، لب شیریں اور دودھ دلاری میں کہاں اور کھیر کی تو کیا ہی بات ہے۔

آج کل توپیکٹ میں سب اجزا تیار ملتے ہیں بس دودھ میں ڈالا اور پکا لیا، مگر جتنا شاندار کھیر کا ذائقہ ہے اتنا ہی مشکل اس کا تیار کرنا بھی ہے۔ چولہے کی آنچ ذرا زیادہ ہوئی یا ہلکی سے بھی لگ گئی تو جلنے کی مہک ساری محنت پر پانی پھیر دیتی ہے۔

اتنی لمبی تمہید کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ آج کھانا پکانے سے متعلق بات کی جائے بلکہ یہ خیال مجھے اس لئے آیا ہے کہ حالیہ الیکشن کے نتائج ابتداء میں تو ایسے معلوم ہورہے تھے کہ عمران خان کی شاندار دعوت ہونے والی ہے لیکن آہستہ آہستہ مصالحے اثر دکھانے لگے اور ذائقہ کا مختصر سا سفر مشکل ہوگیا۔

عمران خان کو جس انداز میں کامیابی ملی ہے، اس پر انہیں مبارکباد باد دینے کی بجائے ان سے ہمدردی کرنے کو دل چاہتا ہے۔ عمران خان کی تبدیلی لانے کی خواہش اور حکومت دونوں بقول ان کے سب سے بڑے ڈاکو اور لاشوں کی بیساکھیوں پر کھڑی ہوگی، جب تک کھڑے رہنا اور جتنا بھی چلنا ہے بیساکھیوں کے سہارے ہی ہوگا۔

دوسرا عمران خان کو ان کی بغیر سوچے سمجھے بولنے کی عادت مسلسل شرمندہ کرارہی ہے، پہلے جو ہوگیا سو ہوگیا لیکن کس عقل مند نے کہا تھا کہ کامیابی کو دم پر لگائے بغیر پہلی تقریر میں حلقے کھولنے کی پیشکش کردیں؟


بنی گالہ کے باورچی کا تو پتہ نہیں لیکن الیکشن کی کھیر جس کسی نے بھی پکائی ہے وہ اناڑی تھا یا پھر موبائیل پر اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرنے میں مصروف ہوگیا تھا، نتیجہ ۔۔۔ کھیر لگ گئی۔ اب تو جب چمچہ منہ کی طرف لے جائیں گے جلے کی مہک آئے گی۔



اس تحریر کے مصنف کاشف فاروقی صحافت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات اور نیوز چینل میں خدمات انجام دیں ہیں۔  ان سے رابطے کے لئے ای میل کریں۔


مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.