ملک معراج خالد اور عمران خان

Meraj Khalid and Imran Khan


انیس سو چھیانوے  کے آخر کی بات ہے کہ  ایک دن میں صبح اٹھا اور کالج جانے کےلیے  گھرسے نکلا تو گلی سے باہر نہ جاسکا۔ ہوا کچھ یوں کہ پولیس نے ناکے لگا کر راستے بند کردیے تھے اور اسلام آباد کے سیکٹر ایف سکس فور  کی  مرکزی شاہراہ پر کئی مقامات پر اونچے اونچے اسپیڈ بریکر بنادیے تھے۔

لوگ حیران تھے یہ کیا  ماجرا ہے۔ پھر پتا چلا  چند گلیاں چھوڑ کر کوئی ملک معراج خالد رہتے ہیں وہ ملک کے نگراں وزیراعظم بن گئے  ہیں  اور وہ وزیراعظم ہاؤس  نہیں گئے بلکہ اپنے گھر میں ہی رہ رہے ہیں اس لیے  ان کی سیکورٹی کےلئے  محلے کو بند کردیا گیا ہے۔ 

خیر جس ملک میں ہم رہتے ہیں وہاں یہ کوئی انہونی نہیں تھی۔ پارلیمنٹ ہاؤس بھی ہمارے گھر سے تھوڑے فاصلے پر ہی واقع تھا اس لیے ہمیں ویسے بھی وی آئی پی پروٹوکول کے نام پر سڑکیں اور راستے بند دیکھنے کی عاد ت تھی۔

پھر ہوا کچھ یوں کہ دوپہر تک حیران کن طور پر تمام رکاوٹیں ہٹا دیں گئیں،  اسپیڈ بریکر توڑ دیئے گیے۔ پولیس کے جگہ جگہ لگائے گئے خیمے بھی غائب ہوگئے۔ ایسا ہرگز نہ تھا کہ ملک معراج خالد سے عہدہ واپس لے لیا گیا تھا بلکہ انہوں نے پروٹوکول کو  خیر باد کہہ دیا تھا۔

ایک اور بات بتانا چاہتا ہوں کہ  ہم  صبح سویرے سیر کو جایا کرتے تھے وہ مارگلہ کی پہاڑیوں  پر واقع ٹریل تھری نامی  معروف مقام کی۔  ملک معراج  خالد  بھی  اکثر اس طرف چہل قدمی کرتے نظر آجاتے تھے۔  اگلی صبح جب ہم وہاں سے گزررہے تھے تو ہماری  ملک معراج خالد پر نظر پڑی، وہ حسب معمول  واک کررہے تھے اور ان کے پیچھے آنے والے پولیس اہلکاروں کو ڈانٹ رہے تھے  کہ جاؤ یہاں سے  چلے جاؤ ۔

ساتھ ہی یہ بتاتا چلوں  کہ معراج خالد کا شمار پیپلزپارٹی کے بانی ارکان میں ہوتا تھا۔ ان کے مخالفین بھی انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ گو اس دور میں کئی سیاستدان ایسے تھے جن پر انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی تھی۔ اب وہ اخلاقی قدریں رکھنے اور جرات کا مظاہرہ کرنے والے  لوگ ہم میں نہیں، کہیں کھو گئے۔


اب بات ہوجائے آئندہ وزیراعظم عمران خان کی جنہیں عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی پروٹوکول ملنے گا۔ پارٹی کی پارلیمانی    اجلاس میں شرکت کےلئے انہیں بنی گالہ کی رہائش گاہ سے بھاری بھرکم پروٹوکول میں نجی ہوٹل تک لے جایا گیا۔ اس کے بعد میڈیا پر خبریں چلیں تو پی ٹی آئی کی طرف سے بیان آیا کہ عمران خان اس پر برہم ہوئے ہیں ۔ 

ہونا تو یہ چاہییے تھا کہ انہیں جرات کا مظاہر ہ کرتے ہوئے بنی گالہ سے ہی پروٹوکول کو واپس بھیج دینا چاہیئے تھا۔ اگر وہ ایسا کرلیتے تو ہمیں یہ سب کچھ لکھنے کا موقع ہی نہ ملتا اور ملک معراج خالد کی یاد بھی نہ آتی۔



اس تحریر کے مصنف محمد اسداللہ خان نے دوہزار ایک میں صحافت کے میدان میں قدم رکھا۔ کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے۔ اب بھی ایک نجی نشریاتی ادارے میں سینئر پروڈیوسر نیوز کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ عالمی، علاقائی اور ملکی حالات پر  کئی تجزیاتی رپورٹیں اور کالم اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔ ان سے رابطہ کرنے کے لئے ای میل کریں۔

مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

کوئی تبصرے نہیں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.