ایک پاؤ گوشت
تحریر: شاہد انجم
بھارتی شہر امرتسر سےتقریبا بائیس کلومیٹر دور گاؤں کے باسی مبارک علی تقسیم ہند کے بعد بیوی اور تین بچوں کے ہمراہ پاکستان کے ضلع شیخوپورہ کے قریب آکر آباد ہوا جہا ں اس کے مزید چار بچوں کی ولادت ہوئی۔ تقسیم کے وقت ان کا چودہ سالہ بڑا بیٹا محمد طفیل کھیتی باڑی میں والد اور دادا کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ چھوٹے بہن بھائیوں سے محبت کا عالم یہ تھا کہ اس نے کبھی بھی کسی سے تلخ لہجے میں بات نہیں کی اسی وجہ سے اس کی والدہ اس سے بہت پیار کرتی تھیں۔
محمد طفیل کی محنت کے باعث چاروں چھوٹے بھائی تعلیم حاصل کرتے رہے اور بعد میں سرکاری اور نجی شعبوں میں اچھے عہدوں پر فائز ہوئے۔ بھائیوں کی شادیاں ہوگئیں۔ سب سے چھوٹا بھائی لیاقت علی کراچی میں رہتا تھا اور کبھی کبھار ہی گھر آیا کرتا تھا۔ والدہ اس کیلئے بہت پریشان رہتی تھیں۔ محمد طفیل کھیتوں میں کچا گھر بنا کر دو بھائیوں کے ساتھ رہائش پذیر تھا جو کہ گاؤں سے تقریبا دو کلو میٹر دور تھا۔ گاؤں سے والدہ روزانہ دو کلو میٹر کی مسافت طے کرکے ملنے جاتی تھیں۔
والدہ کو یہ احساس تھا کہ محمد طفیل کے بچے اب بڑے ہو رہے ہیں مگر اس کا شوہر اور دیگر بیٹے آہستہ آہستہ محمد طفیل کا ساتھ چھوڑتے جا رہے ہیں جو ایک لمحہ فکریہ تھا۔ کھیتی باڑی سے آنے والی آمدن بھی محمد طفیل کے دیگر بھائیوں کے پاس ہی رہتی تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب جنرل ضیا الحق ملک کے صدر تھے اور جمعتہ المبارک کے روز چھٹی ہوا کرتی تھی۔
چھٹی کے روز مشترکہ طور پر تمام گھروں میں روزمرہ کی اشیاء بھجوائی جاتی تھیں۔ تمام اشیاء پہلے والدہ کے پاس لاکر الگ الگ تھیلوں میں تقسیم ہوتی تھیں اور پھر والدہ تمام بیٹوں کو بھجوادیتی تھیں۔ ایک جمعتہ المبارک کو چوتھے بیٹے نے والدہ سے کہا میں قصائی سے گوشت لایا ہوں اور یہ تھیلیاں رکھ دی ہیں، آپ ان کو بھجوا دیں۔
چھٹی کے روز مشترکہ طور پر تمام گھروں میں روزمرہ کی اشیاء بھجوائی جاتی تھیں۔ تمام اشیاء پہلے والدہ کے پاس لاکر الگ الگ تھیلوں میں تقسیم ہوتی تھیں اور پھر والدہ تمام بیٹوں کو بھجوادیتی تھیں۔ ایک جمعتہ المبارک کو چوتھے بیٹے نے والدہ سے کہا میں قصائی سے گوشت لایا ہوں اور یہ تھیلیاں رکھ دی ہیں، آپ ان کو بھجوا دیں۔
والدہ نے کہا کہ بیٹا میں نے دیکھ لیا ہے مجھے ایسا لگتا ہے کہ ایک تھیلی کم ہے۔ ان کی تعداد پانچ ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک تھیلی تم قصائی کی دکان پر بھول آئے ہو جس پر محمد سرور نے جواب دیا کہ بڑے بھائی کیلئے گوشت نہیں لیا۔ یہ بات سن کر والدہ کو شدید صدمہ پہنچا اور وہ اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئیں۔ چند منٹ بعد ہی معلوم ہوا کہ وہ صدمے کو برداشت نہ کرتے ہوئے دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں۔
والدہ کی تدفین کے بعد محمد طفیل نے اپنے بھائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج تم نے ایک پاؤ گوشت کی خاطر مجھ سے میری ماں چھین لی ہے اور گوشت تدفین میں آ نے والوں کو کھلانا پڑا۔ اگر تم ایسا نہیں کرتے تو آج ہم اپنی والدہ سے محروم نہ ہوتے۔
محمد طفیل کی اس کہانی کو سن کر مجھے سنت ابراہیمی یاد آگئی۔ تمام لوگ اپنی پسند کے بڑے بڑے جانور خریدکر لا رہے ہیں جس میں کئی کئی من کے جانور بھی شامل ہیں جن کی گلی محلوں میں نمائش بھی کی جارہی ہے اور غریب گھرانوں کے لوگ انہیں دیکھ کر خوش ہو رہے ہیں کہ عید کے روز ان کی قربانی ہوگی اور ہمیں بھی گوشت کی چند بوٹیاں میسر ہوں گی لیکن کیا پتہ ایسا نہ ہو بلکہ حقیقت اس کے برعکس ہو۔
ہم سب کو اس کے بار ے میں سوچنا چاہیے کہ وہ لوگ جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے، ایسا نہ ہو ہم انہیں بھول جائیں یا نظر انداز کردیں اور ایک پاؤ گوشت کی خاطر پھر کوئی ماں کی چھاؤں سے محروم ہوجائے۔
ہم سب کو اس کے بار ے میں سوچنا چاہیے کہ وہ لوگ جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے، ایسا نہ ہو ہم انہیں بھول جائیں یا نظر انداز کردیں اور ایک پاؤ گوشت کی خاطر پھر کوئی ماں کی چھاؤں سے محروم ہوجائے۔
اس تحریر کے مصنف شاہد انجم کہنہ مشق صحافی ہیں اور جرائم کی کوریج میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ شاہد انجم سے ان کے فیس بک اکاؤنٹ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مندرجہ بالا تحریر خبر کہانی کی ایڈیٹوریل پالیسی کی عکاس نہیں اور خبرکہانی کا بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بہت خوب
جواب دیںحذف کریں